ورثہ کے متعلق ایک مسئلہ معلوم کرناہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم سات بھائی اور چار بہن ہیں ،جس میں دوبھائیوں کاانتقال ہوگیاہے ،چھوٹے بھائی کاانتقال والدصاحب کی زندگی میں ہواتھا،بڑے بھائی کاانتقال والد صاحب کی وفات کے بعد ہوامرحوم بڑے بھائی کوویسے تووالد صاحب نے اپنی زندگی میں 120 گزکاپلاٹ دیاتھا،اوربڑی بہن کو120 گزکامکان دیاتھا،اور2011 میں میرے اوردوسرے بھائیوں اوربہنوں میں نااتفاقی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی ،یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آگئی تومیں نے اپنے گھروالوں سے پانچ لاکھ روپے مانگے کہ میں کہیں جاکررہوں توانہوں نے مجھے 270000 دولاکھ سترہزارروپے دئیے ،امن کی خاطر میں اس بات پرتیارہوگیا،پیسے دیتے وقت بڑے بھائی نے کہاکہ اب تمہارااس گھرمیں کوئی حصہ نہیں ہے ،میں نے اس بات پرہاں کہاکیونکہ لڑائی بہت زیادہ کشیدگی اختیارکرگئی تھی ،یہ سارے معاملات مجھ سے بڑے بھائی سے ہوئے سب سے بڑے بھائی کاانتقال ہوگیاہے ،اب والد صاحب کاگھرچالیس لاکھ میں فروخت ہورہاہے ،اس ورثہ میں میراحق ہے یانہیں یاہے توکتناہے ،برائے مہربانی ان چالیس لاکھ میں ہم بھائی بہن اوروالدہ کے حصے کتنی رقم آئے گی وہ بتادیں اورکن کن کونہیں ملے گا۔؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد صاحب نے زندگی میں جوبڑے بیٹے کو120 گز پلاٹ دیااوربیٹی کو120 گزکامکان دیااگر ان پربیٹے اوربیٹی نے قبضہ بھی کرلیاتھاتویہ خاص انہیں کاہوگا،ان میں دیگرورثہ کاکوئی حق نہیں ہوگا۔
ان کے علاوہ جوکچھ بھی والد کامال ہے وہ سب ورثہ میں تقسیم ہوگااوروفات کے وقت جوورثہ زندہ تھے ،ان میں چھ بھائی اورچاربہنیں اوروالدہ ہیں ،موجودہ مکان جس کی قیمت 4000000 لاکھ ہے یہ مکان تمام موجودہ ورثہ میں اس طرح تقسیم ہوگاکہ 500000 والدہ کوملیں گے ،اورہربیٹے کو437500 ،اورہربیٹی کو218750 روپے ملیں گے ۔
آپ نے جوبھائیوں سے رقم لے کرمعاملہ کیاہے اس کے بعد اب اگرتمام بہن بھائی آپ کواصل حساب کے مطابق 437500 روپے دینے پرراضی ہیں توآپ ان سے بقیہ حصہ لے سکتے ہیں ،لیکن اگروہ راضی نہیں ہوتے توچونکہ آپ نے پہلےکم پیسے لے کر بقیہ میراث سے نکلنے کااقرار کرلیاتھا،اس لئے آپ کے اس اقرار کی وجہ سے اب آپ مزید حصے کامطالبہ نہیں کرسکتے ،کیونکہ شرعااگرکوئی وارث کچھ مال لے کرمیراث سے نکل جائے تواس کوتخارج کہتے ہیں ،ایسی صورت میں گویاوہ وارث اپناحصہ ورثاء کوبیچ دیتاہے ،لہذااس طرح بیع کے بعد پھردوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر اقالہ ممکن نہیں ہوتا۔
پھرجوپیسے آپ کودئے گئے تھے اگربھائی نے وہ پیسے اپنی طرف سے دئیے تھے تواس حصہ کی بقدرجتناحصہ آپ کامیراث میں بنتاہے وہ خاص اس بھائی کوملے گااورباقی تمام ورثہ میں تقسیم ہوگااوراگراس نے میراث میں سے ہی دیاہوتوآپ کاپوراحصہ تمام ورثہ میں بطورمیراث تقسیم ہوگا۔
نوٹ یہ تقسم صرف والد کی میراث کی ہے، آپ کاجوبھائی والد کے بعد فوت ہواہے اس کوبھی زندہ شمارکرکے میراث تقسیم کی گئی ہے،اگربھائی کی میراث کی تقسیم کے حوالے سے بھی حکم معلوم کرناہےتوبھائی کے ورثہ کی پوری تفصیل لکھ کردوبارہ سوال کرلیں
حوالہ جات
۔
قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء آیت: 11 )
يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين الخ ۔
وقال اللہ تعالی ایضافی سورۃ النساء آیت: 12 )
ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن من بعد وصية يوصين بها أو دين ولهن الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم من بعد وصية توصون بها أو دين۔الخ۔
"شرح المجلۃ "ج 1ص473 )
یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک۔
"تكملة حاشية رد المحتار" 2 / 393:
لو أخرجوا واحدا وأعطوه من مالهم فحصته تقسم بين الباقي على السواء، وإن كان المعطى مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم۔قال الشارح ھناک وقیدہ الخصاف بکونہ عن انکار فلوعن اقرار فعلی السواء فتأملہ۔
واعلم أنه إذا أخرجوا واحدا فحصته تقسم بين البقية على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث، وإن كان مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم۔
"ھدایۃ "2/240 :
واذاکانت الترکۃ بین ورثۃ فاخرجوااحدھم منھابمال اعطوہ ایاہ والترکۃ عقاراوعروض جازقلیلاکان مااعطوہ ایاہ اوکثیرالانہ امکن تصحیحہ بیعا،وان کانت الترکۃ فضۃ فاعطوہ ذھبااوذھبافاعطوہ فضۃ فکذالک لانہ بیع الجنس بخلاف الجنس ویعتبرالتقابض فی المجلس لانہ صرف،وان کانت الترکۃ ذھبااوفضۃ فصالحوہ علی فضۃ اوذھب فلابدان یکون مااعطوہ اکثرمن نصیبہ من ذالک الجنس ولوکان فی الترکۃ الدراھم والدنانیروبدل الصلح دراھم اودنانیرایضاجاز الصلح کیف ماکان صرفاللجنس الی خلاف الجنس لکن یشترط التقابض للصرف۔
"البحر الرائق " 19 / 494:
فإذا أخرجوا واحدا فحصته تقسم بين البقية على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث وإن كان مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم وقيده الخصاف بأن يكون عن إنكار أما إذا كان عن إقرار فهو بينهم على السواء مطلقا۔