021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالوں کو رنگنا
55958 ۔2جائز و ناجائزامور کا بیانلباس اور زیب و زینت کے مسائل

سوال

بالوں پرمہندی کے علاوہ کوئی دوسراکوئی کلر وغیرہ کرنامثلاجیوکلر یااس کی مانند دوسری اشیاء جن کے اندرکیمیکل ملاہواہو،استعمال کرناجائزہے یانہیں ؟سناہے کہ ان اشیاء کے استعمال سے غسل اداء نہیں ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس طرح خالص سیاہ خضاب لگاناگناہ ہے ، اس طرح کالے رنگ کے ساتھ بالوں کورنگنابھی جائزنہیں ،کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، البتہ سیاہ رنگ کے ساتھ کسی اوررنگ کی آمیزش ہو تو جائزہے ،اگرچہ سیاہ ہی غالب ہو ،لیکن بعض اہل علم نے جوان آدمی کے لئے (جس کی عمر 40 سال سے کم ہو) سیاہ خضاب لگانے کی بھی گنجائش دی ہے ،جس کامقصدازالہ عیب ہے،کیونکہ جوان میں سفید بالوں کاہوناعیب شمارہوتاہے ،اس کے علاوہ خالص کسی دوسرے رنگ کے استعمال کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں : ۱۔ ایسی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے جس میں کسی ایسی حرام چیز مثلا سوریامردار کی چربی ،کی آمیزش ہوجس کی حقیقت وماہیت کسی کیمیائی عمل کے ذریعہ تبدیل نہ کی گئی ہو،لہذااگریقینی طورپرمعلوم ہوکہ مذکورہ رنگوں میں کسی حرام چیز کی ملاوٹ ہے اورماہیت کی تبدیلی کایقین نہ ہوتواستعمال جائزنہیں ،اوراگرصرف شک یاملاوٹ کایقین ہو،لیکن ماہیت کی تبدیلی کابھی یقین ہوتوایسی چیز کااستعمال جائزہے ۔ ۲۔ ایسی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے جس میں ایسے مواد شامل ہوں جوبالوں کے لئے نقصان دہ ہوں۔ ۳۔رنگ ایساہوجس سے جسم تک پانی پہنچ جاتاہو،اگرپانی نہ پہنچتاہوتوایسارنگ لگانا جائزنہیں ۔
حوالہ جات
"مرافی الفلاح" / 81 : ولابد من زوال مایمنع وصول الماء للجسد کشمع وعجین لاصبغ بظفر صباغ ولامابین الاظفار ۔ "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 1/154 : ولایمنع الطہارۃ ونیم وحناء لوجرمہ وبہ یفتی ۔وفی الشامیۃ تحتہ قولہ وبہ یفتی ۔صرح بہ فی المنیہ عن الذخیرۃ فی مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ ،قال فی شرحہاولان الماء ینفذہ لتخللہ وعدم لزوجتہ وصلابتہ والمعتبر فی جمیع ذالک نفوذالماء ووصولہ الی البدن ۔ "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 6/422 ) ویستحب للرجل خضاب شعرہ ولحیۃ الی قولہ ویکرہ بالسواد ۔ "الھندیۃ"6/238 : واماالخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاۃ لیکون أھیب فی عین العدو فہو محمودمنہ اتفق علیہ المشائخ ،ومن فعل ذالک لیزین نفسہ للنساء ولیحبب نفسہ الیہن فذالک مکروہ وعلیہ عامۃ المشائخ وعن الامام رحمہ اللہ تعالی ان الخضاب حسن لکن بالحناء والکتم والوسمۃ ۔ "مرقاة المفاتیح "8/211 : وعن جابررضی اللہ عنہ قال: اٴتی باٴبی قحافة یوم فتح مکة وراٴسہ ولحیتہ کاالثغامة بیاضا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:غیروا ھذابشئ واجتنبواالسواد۔رواہ مسلم۔ قال الملاعلی القاری: غیرواھذا،اٴی البیاض وبشئ آخرمن البیاض۔ "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 29 / 344) وفصل في المحيط بين الخضاب بالسواد قال عامة المشايخ : إنه مكروه وبعضهم جوزه مروي عن أبي يوسف ، أما بالحمرة فهو سنة الرجال وسيما المسلمين ا هـ منح ملخصا وفي شرح المشارق للأكمل: والمختار أنه صلى الله عليه وسلم خضب في وقت ، وتركه في معظم الأوقات ، ومذهبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن كما في الخانية قال النووي : ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة وتحريم خضابه بالسواد على الأصح لقوله عليه الصلاة والسلام { غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب