021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قتل شبہ عمد کی ایک صورت اوراس کاحکم
56284قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

حافط محمد قاسم ساکن ضلع خانیوال ہمارے مدرسہ ضلع سیالکوٹ میں مدرس تھے ،دوسال سے کام کررہے تھے،عیدالاضحی کی چھٹیوں میں اپنے گھر گئے ،ہمیں ان کی غیر اخلاقی حرکات کا علم ہوا،جس کے شواہد بھی موجود تھے ،ان حرکات کا علم میرے بیٹے اور بھتیجے کو بھی ہوا۔موصوف مذکور کو کچھ سزا دے کر ان کے گھر والوں کو بلا کر ان سے اس علاقہ میں نہ آنے کا وعدہ لے کر ان کے حوالے کرنا تھا ۔چنانچہ محمد قاسم 19-09-2016 کو صبح سات بجے مدرسہ پہنچے تو انہیں لڑکوں نے ڈنڈوں سے مارا پیٹا۔اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو لینے کون سے بھائی آئیں گے تو انہوں نے اپنے بھائی ابوبکر کا نمبردیا۔لیکن رابطہ نہ ہوسکا،پھر دوسرا نمبر دیا،رابطہ ہونے پر ان کو محمد قاسم کی غیر اخلاقی حرکات کے بارے میں اطلاع کی اور بتایا کہ انہیں سزادی گئی ہے۔اور وہ موبائل فون بھی لے کر آئیں،جو ماسٹرندیم صاحب کے پاس ہے اور اسے لے جائیں ۔راستہ میں ان سے مسلسل رابطہ رہا،موبائل فون کا ڈیٹا اس پر شاہد ہے،تین گھنٹے بعد اچانک محمدقاسم کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی،چائے،دودھ وغیرہ پلایا گیا،ڈاکٹر کو بلایا گیا لیکن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے موصوف فوت ہوگئے۔اس وقت موصوف کے گھروالے ساہیوال پہنچے تھے،موصوف کو جان سے مارنے کا ہرگز کوئی منصوبہ نہ تھا ،جس کے مندرجہ ذیل شواہد ہیں: ١۔اگر جان سے مارنا مقصود ہوتا تو موصوف کے مدرسہ آنے کاانتظارنہ کیا جاتا۔ ۲۔کوئی بندوق یا گولی وغیرہ استعمال نہ کی گئی جبکہ یہ آسان ذریعہ ہے۔ ۳۔موصوف کی وفات کے بعد لاش کو چھپانے اور غائب کرنے کی یا بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ۴۔موصوف کی وفات کے بعد ہم سارے ان کے گھروالوں کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ ۵۔اہل خانہ کے آنے کے بعد ساری حقیقت ان کے سامنے رکھی اوران سے کہا گیا کہ جو کاروائی آپ مناسب سمجھتے ہیں کرلیں۔ ٦۔موصوف کے فوت ہونے کے بعد علاقہ کے سمجھدار لوگوں کو بلا کرساری حقیقت بتائی گئی کہ جو کچھ ہوا ہے وہ نادانستہ طور پر ہوا ہے جبکہ ابھی موصوف کے اہل خانہ نہیں پہنچے تھے۔ ۷۔آنے والے اہل خانہ نے اپنے گھر والوں سے فون پر مشورہ کرکے کہا کہ ہم قانونی کاروائی چاہتے ہیں،پولیس کو اطلاع بھی ہم نے خود دی ہے۔پولیس آئی تو میت حوالہ کی گئی اورمیرے بیٹے اور بھتیجے کوحوالہ پولیس کردیا گیا،مدعی کو لکھا ہواخط بھی ساتھ لف ہے۔میں حلفا کہتا ہوں کہ موصوف کو قتل کرنے کا کوئی منصوبہ نہ تھا۔نادانستہ طور پر سزا میں احتیاط نہ رہی،جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قتل عمد ہے یا خطاء؟یا کوئی اور صورت ہے؟او اس کے کیا کچھ احکامات ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔یہ صورت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کےنزدیک شبہ عمد کی ہے،اور حضرات صاحبین رحمہا اللہ تعالی کے ہاں قتل عمد کی ہے،لیکن راجح قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا ہے۔ شبہ عمد کا حکم یہ ہے کہ قاتل پر کفارہ اور عاقلہ پر دیت مغلظہ لازم ہوگی۔کفارہ کی تفصیل یہ ہےکہ قاتل کو مسلسل دوماہ روزے رکھنا ہوں گے،اور دیت مغلظہ کی تفصیل یہ ہےکہ سو اونٹ اس طرح دینا لازم ہوں گے کہ 25 بنت مخاض یعنی وہ اونٹ جن کی عمر کا دوسرا سال چل رہا ہو،25 بنت لبون یعنی وہ اونٹ جن کی عمر کا تیسرا سال چل رہاہو،25 حقہ یعنی وہ اونٹ جو عمر کے چوتھے سال میں ہوں اور25 جذعہ یعنی وہ اونٹ جن کی عمر کا پانچواں سال جاری ہو،دینا لازم ہوں گے۔اور اگر اونٹوں کی مذکورہ اقسام کی جگہ ان کی قیمت دے دے تو بھی جائز ہے۔

حوالہ جات
-

شفاقت زرین

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

12/صفر1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب