021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر بتائے وکیل کا مؤکل سے کمیشن لینا
56526اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میرانام نعیم میمن ہے ،میرے اورحاجی عبد الحفیظ میمن کے درمیان ایک زبانی معاہدہ ہوا جوکہ عبدالحفیظ میمن پر اعتماد کی بنیاد پر انجام پایا ،اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ حاجی عبد الحفیظ میمن نے سولر لگوایا تو نعیم میمن کا بھی اسے دیکھ کر ارادہ ہوا لہذا اس نے حاجی عبد الحفیظ میمن سے سولرسسٹم کے بارے میں دریافت کیا ،اس پر حاجی عبد الحفیظ میمن نے سولر والے سے ٹیلیفون پر گفتگوکرکے نعیم میمن کو سولر سسٹم کی تمام رقم بتادی اورنعیم میمن نے یہ رقم اپنے پاس ایک سادہ کاغذپر نوٹ کرلی،معاہدہ سے پہلے حاجی عبد الحفیظ صاحب نے کچھ باتیں نعیم میمن کے سامنے رکھ دی جسے نعیم میمن نے قبول کرلی ،جس کی تفصیل درجہ ذیل ہے ۔ ۱:سولر سامان منگوانے سے پہلے تمام سامان کی رقم حاجی عبد الحفیظ کے حوالے کرنا ہوگی جسے بینک میں جمع کراکر حاجی عبد الحفیظ خود بائع کو بھیجے گا۔ ۲:رحیم یار خان سے ھالا(گھر)تک سولر سسٹم منگوانے کا خرچہ نعیم میمن کو ادا کرنا ہوگا۔ ۳:سولرانورٹرکی ایک سال اورسولرپلیٹوں کی پانچ سال وارنٹی ہوگی ۔ زبانی کہی گئیں یہ تمام باتیں نعیم میمن نے حاجی عبد الحفیظ میمن پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کی اورساری رقم پیشگی حاجی عبد الحفیظ کے حوالے کردی اورسولرسسٹم کا سامان آگیا اورلگ گیا ،اس کے بعد نعیم میمن نے حاجی عبد الحفیظ میمن سے بائع کی طرف سے ارسال کردہ بل دینے کی درخواست کی جس کے جواب میں حاجی عبد الحفیظ صاحب نے بل دینے سے یہ کہہ کرانکار کردیاکہ میں کوئی بیوپاری نہیں ہوں کہ جو آپ کو بل دوں، آج تک انہوں نے 271600روپنے کا بل اوروارنٹی کارڈ نہیں دیئے، جب نعیم میمن کو بل نہیں ملا تو اس نے رحیم یارخان والے سولر کے بائع سے رابطہ کیا تو اس نے 46600روپے کم بتائے،یہ اضافی رقم حاجی عبد الحفیظ نےنعیم میمن سے بغیر بتائےوصول کی ۔دونوں قیمتوں میں 46600روپنے کا فرق تھا،حاجی عبد الحفیظ میمن اپنی زبان سے فرماچکے ہیں کہ وہ بیوپاری نہیں ہے اورنہ ہی اس کے پاس الگ سے سولرکے سامان کا ذخیرہ موجود ہے اورنہ ہی معاہدے سے پہلے حاجی عبد الحفیظ میمن نے سامان دکھایاتھا جیسے کہ دکاندارسامان خریدنے سے پہلے گاہک کو سامان دکھاتاہے ۔تمام سولر کے سامان کی خریداری میں ایک آنہ بھی حاجی عبد الحفیظ میمن کی طرف سے نہیں تھا ،تمام سولر کے سامان کے پیسے منگوانے سے پہلے ہی نعیم میمن ادا کرچکاتھا ۔جبکہ معاملہ کےقبولیت کے وقت نفع لینے یا دینے کا ذکر دونوں فریقوں کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا ۔رحیم یارخان سے ہالا (گھر تک) سولر کے سامان کے ٹرنسپورٹ کا تمام خرچہ حاجی عبدالحفیظ میمن نے وصول کیا لیکن ٹرانسپورٹ کی رسید طلب کی خورست کی تو انہوں نے نہیں دی۔ اب مجھے یہ پوچھناہے کہ کیا حاجی عبدالحفیظ میمن نے جو اضافی رقم اعتماد کی بنیاد پر نعیم میمن سے حاصل کی جوکہ دکاندار کے حاصل کردہ نفع سے بھی دس گنازیادہ تھی وہ حاجی عبد الحفیظ میمن کے لیے حلال ہے یاحرام ؟کیامذکورہ معاہدہ جومحض اعتماد کی بنیاد پر ہوا تھا اس میں حاجی عبد الحفیظ نے جو رقم وصول کی ہے اس پر نفع کا اطلاق ہوتاہے ؟اگرہوتا ہے تو مزید یہ بھی فرمادیں کہ نفع حاصل کرنے کےلیے شرعاًکیا شرائط ہونا لازمی ہے یا کن باتوں کا ہونا لازمی ہوتاہے؟ سائل نے فون پر زبانی بتایاکہ حاجی عبدالحفیظ میمن ایک زمیندار آدمی ہے ،اس کی کسی چیز کی کوئی دکان نہیں ہے، انہوں نےکہاتھاکہ میں محض ہمدردی کے طورپر یہ سامان آپ کو منگواکر دے رہاہوں ،نیز یہ بھی واضح رہے کہ حاجی عبدالحفیظ اوربائع کے درمیان کمیشن کا کوئی معاملہ بھی نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صوتِ مسئولہ میں جب حاجی عبد الحفیظ صاحب سولر کا کاروبار نہیں کرتےاوران کی سولرکی کوئی دکان بھی نہیں اورسولرکے حوالے سے ان دونوں میں اس سے پہلےبھی معاملات نہیں ہوئےجیسے کہ فون پر سائل نے بتایانیز ان کے اور فروخت کنندہ بائع کے درمیان کمیشن کابھی کوئی معاملہ طے نہیں تواس صورت میں حاجی عبد الحفیظ کے لیے بتائے بغیر نعیم میمن سے نفع لینا جائز نہیں ،وہ شرعاً نعیم میمن کے مفت کے وکیل تھے، لہذا ان کا مذکورہ نفع لینا حلال نہ تھا ،لہذا ان پر اب لازم ہے اصل قیمت سےجتنی بھی اضافی رقم انہوں نے نعیم میمن صاحب سے وصول کی ہے وہ ان کو واپس کردے اورجتناعرصہ رقم استعمال کی ہے اس کی نعیم میمن سے بھی معافی مانگے اوراللہ کے حضوربھی تہہ دل سے توبہ و استغفار کرے،نیز اگر اس رقم سے کوئی نفع کمایا ہوتو وہ بھی نعیم میمن کودیدے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 246) وإن قال: صاحب الثوب عملته لي بغير أجر وقال الصانع بأجر فالقول قول صاحب الثوب" عند أبي حنيفة؛ لأنه ينكر تقوم عمله إذ هو يتقوم بالعقد وينكر الضمان والصانع يدعيه والقول قول المنكر "وقال أبو يوسف: إن كان الرجل حريفا له" أي خليطا له "فله الأجر وإلا فلا"؛ لأن سبق ما بينهما يعين جهة الطلب بأجر جريا على معتادهما "وقال محمد: إن كان الصانع معروفا بهذه الصنعة بالأجر فالقول قوله"؛ لأنه لما فتح الحانوت لأجله جرى ذلك مجرى التنصيص على الأجر اعتبارا للظاهر، والقياس ما قاله أبو حنيفة؛ لأنه منكر. والجواب عن استحسانهما أن الظاهر للدفع، والحاجة هاهنا إلى الاستحقاق والله أعلم.وکذا فی فتح القدير للكمال ابن الهمام (9/ 143) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 221) ولو اختلف الصانع والمستأجر في أصل الأجر كالنساج والقصار، والخفاف والصباغ فقال رب الثوب والخف: عملته لي بغير شرط، وقال الصانع: لا؛ بل عملته بأجرة درهم، أو اختلف رب الدار مع المستأجر فقال رب الدار: أجرتها منك بدرهم، وقال الساكن بل سكنتها عارية، فالقول قول صاحب الثوب، والخف، وساكن الدار في قول أبي حنيفة مع يمينه، ولا أجر عليه، وقال أبو يوسف: إن كان الرجل حرا ثقة فعليه الأجر، وإلا فلا، وقال محمد: إن كان الرجل انتصب للعمل فالقول قوله، وإن لم يكن انتصب للعمل فالقول قول صاحبه، وعلى هذا الخلاف إذا اتفقا على أنهما لم يشترطا الأجر لكن الصانع قال: إني إنما عملت بالأجر، وقال رب الثوب: ما شرطت لك شيئا، فلا يستحق شيئا.(وجه) قولهما اعتبار العرف والعادة فإن انتصابه للعمل، وفتحه الدكان لذلك دليل على أنه لا يعمل إلا بالأجرة، وكذا إذا كان حريفه فكان العقد موجودا دلالة، والثابت دلالة كالثابت نصا.ولأبي حنيفة أن المنافع على أصلنا لا تتقوم إلا بالعقد، ولم يوجد، أما إذا اتفقا على أنهما لم يشترطا الأجر فظاهر، وكذا إذا اختلفا في الشرط؛ لأن العقد لا يثبت مع الاختلاف للتعارض فلا تجب الأجرة، ثم إن كان في المصنوع عين قائمة للصانع كالصبغ الذي يزيد، والنعل يغرم رب الثوب والخف للصانع ما زاد الصبغ والنعل فيه لا يجاوز به درهما، وإلا فلا والله - عز وجل - أعلم. الفتاوى الهندية (4/ 478) إن اختلفا في أصل الأجرة فقال رب الثوب للقصار عملت بغير أجر وقال القصار لا بل عملت لك بأجر فإن اختلفا قبل العمل يتحالفان ويبدأ بيمين المستأجر وإن اختلفا بعد الفراغ من العمل فالقول لرب الثوب وإن تصادقا على أنه دفع إليه ولم يسم الأجرة لم يذكره في الكتاب وذكر أبو الليث - رحمه الله تعالى - في عيون المسائل أن فيه أقوالا ثلاثة وقال محمد - رحمه الله تعالى - إن اتخذ دكانا وانتصب لعمل القصارة فإنه تجب الأجرة وإلا فلا وعليه الفتوى هكذا في محيط السرخسي.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب