اگر ایک عورت روزے کے کفارے کے طور پر ساٹھ روزے رکھنے کی نیت سے روزے شروع کرے، پھر درمیان میں سخت بیمار ہوجائے اور ایک یا دو روزے اس سے چھوٹ جائیں ، تو کیا وہ پھر ابتدا سے شروع کرےگی یاجتنے رہ گئے ہیں اس کو پورا کرےگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے، پہلے رکھے ہوئے روزوں کا اعتبار نہیں ہوگا، لیکن عورت کے ماہواری کے ایام اگر درمیان میں آجائے تو پھر نئے سرے سے شروع کرنے کی ضرورت نہیں، صرف بقیہ روزوں کو پورا کرنا کافی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض(رد المحتار:2/ 412)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: اعلم أن الصيامات اللازمة فرضا ثلاثة عشر سبعة منها يجب فيها التتابع، وهي رمضان وكفارة القتل وكفارة الظهار وكفارة اليمين وكفارة الإفطار في رمضان والنذر المعين وصوم اليمين المعين. (البحر الرائق :2/ 278)
واللہ سبحانہ و تعالی أعلم
اسلام الدین
دارالافتا ء، جامعۃالرشید، کراچی
1/ربیع الثانی 1438ھقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض(رد المحتار:2/ 412)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: اعلم أن الصيامات اللازمة فرضا ثلاثة عشر سبعة منها يجب فيها التتابع، وهي رمضان وكفارة القتل وكفارة الظهار وكفارة اليمين وكفارة الإفطار في رمضان والنذر المعين وصوم اليمين المعين. (البحر الرائق :2/ 278)