021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمامہ سے متعلق مختلف سوالات
57208.1جائز و ناجائزامور کا بیانلباس اور زیب و زینت کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء عظام و مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں: 1. کیا عمامہ عبادات میں سے ہے یا عادات میں سے؟ 2. عمامہ لباس میں سے ہے یا نہیں؟ 3. عمامہ کے ساتھ نماز سنت مؤکدہ ہے یا مستحب؟ 4. عمامہ کے بغیر نماز مکروہ ہے یا نہیں؟ 5. اگر عمامہ کے بغیر نماز پڑھ لی تو پھر اعادہ نماز ہے یا نہیں؟ 6. ٹوپی کے ساتھ یا ننگے سر نماز پڑھنا کیا ان دونوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ 7. اصرار، التزام اور لزوم میں کیا فرق ہے؟ 8. بغیر عمامہ شخص کو معیوب سمجھنا اور اس سے نفرت کرنا کیسا ہے؟ 9. کیا عمامہ صرف علماء کرام کے لیے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لیے؟ آپ سے درخواست ہے کہ ان سولات کی رہنمائی فرماکر مشکور فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. عمامہ عادات میں سے ہے ،کیونکہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سے باندھناثابت ہے،البتہ سنت زائدہ ہے،جس کادرجہ مستحب کاہے،اگرکوئی ثواب کی نیت سے باندھے تواتباع سنت کاثواب ملے گا،نہ باندھے توکوئی گناہ نہیں ہے،کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ باندھنے پرمواظبت(دائمی طورپر) ثابت نہیں ہے۔ 2. عمامہ لباس کی سنت ہے۔ 3. اتباع سنت کی خاظر عمامہ پہن کرنماز پڑھے تومستحب ہے،لیکن اس نماز کاثواب بغیرعمامہ کے نمازپڑھنے والے سے زیادہ نہیں ہوگا،نماز کے ثواب میں دونوں برابرہوں گے۔ 4. عمامہ کے بغیرنماز مکروہ نہیں ہے۔ 5. بغیرعمامہ کے نماز کااعادہ بھی لازم یامستحب نہیں۔ 6. ٹوپی کےبغیر ننگے سر نماز پڑھنایاپڑھانااگرسستی اورلاپرواہی کی وجہ سے ہوتویہ مکروہ تحریمی اورناجائزہے ،عادت اورلاپرواہی کے طورپرنہ ہوتوبھی خلاف سنت ہے،البتہ نمازدونوں صورتوں میں ہوجائے گی ،لیکن اس کی عادت بنانا مکروہ ہے ۔ 7. "اصرار"کا لغت میں معنی کسی کام کوسختی اورپابندی سے جاری رکھنا ہوتاہے،البتہ فقہاء کے کلام اورفتاوی میں اصرار والتزام دونوں کسی غیرلازم کام کولازم یعنی فرض وواجب قراردینے کے لئے یعنی اعتقاد یاعمل اختیارکرنے کے لئے ہوتاہے۔ "لزوم" کامعنی یہ ہوتاہے کہ عمل یاقول سے کوئی بات خودبخود لازم آئے،کہنے یاکرنے والا اس کااعتقاد نہ رکھے۔ 8. جس نے عمامہ نہ پہناہو،اس کومعیوب سمجھنااچھی بات نہیں ہے،کیونکہ اس کاباندھنامستحب کے درجے میں ہے،اورکسی مستحب کام کوچھوڑنے والاعقاب وعتاب کامستحق نہیں ہوتا۔ 9. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اس میں عوام خواص کی کوئی تفریق نہیں،جوبھی ثواب کی نیت سے پہنے گا،اس کوان شاء اللہ ثواب ملے گا۔
حوالہ جات
"سلسلة الأحاديث الضعيف- كاملة" 6 / 149: و الراجح أن العمامۃ من سنن العادة لا من سنن العبادة ۔ "سنن الترمذي " 4 / 247: حدثنا قتيبة حدثنا محمد بن ربيعة عن أبي الحسن العسقلاني عن أبي جعفر بن محمد بن ركانة عن أبيه أن ركانة صارع النبي صلى الله عليه و سلم فصرعه النبي صلى الله عليه و سلم ؟ قال ركانة سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: إن فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس۔ قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بالقائم ۔ "تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي "9 / 372: فائدة أخرى: لم أجد في فضل العمامة حديثاً مرفوعاً صحيحاً، وكل ما جاء فيه إما ضعيفة أو موضوعة۔ "الھندیۃ" 1/106 : تکرہ الصلاۃ حاسرارأسہ اذاکان یجدالعمامۃ وقدفعل ذالک تکاسلااوتہاونابالصلاۃ۔ "ردالمحتار" 1/641 : وکرہ (صلاتہ حاسرا)ای کاشفا(رأسہ للتکاسل )وفی الشامی (للتکاسل ای لأجل الکسل بان استثقل تغطیتہ ولم یرھاامرامہما فی الصلاۃ فترکھالذالک ۔ "صحیح البخاری " 1/56 : عن الحسن رحمہ اللہ تعالی کان اقوام یسجدون علی العمامۃ والقلنسوۃ ۔ "الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري"1 / 13: المستحب ما كان مدعوا إليه على طريق الاستحباب دون الحتم والإيجاب وفي إتيانه ثواب وليس في تركه عقاب۔ "تاج العروس"1/3057 : ھی مشتقۃ من أصررت علی الشیئ اذاأقمت ودمت علیہ ومنہ قولہ تعالی: ولم یصروعلی مافعلووھم یعلمون ۔۔۔۔أصر علی فعلہ یصراصرار اذاعزم علی ان یمضی فیہ ولایرجع ۔وایضا قولہ تعالی :وکانو یصرون علی الحنث العظیم ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب