کیافرماتے ہیں علمائے دین متین ومفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگرہم ہسپتال میں مریضوں کوپیش آنے والے مسائل میں صدقات کے ذریعے ان کی مدد کرناچاہیں تواگر ایک صورت میں ہماری مددسے کسی جان لیوامرض میں مبتلاشخص کی تکلیف وقتی طورپر دورہوجاتی ہے،لیکن پھربھی موت یقینی ہو۔
دوسری صورت میں کسی ایسے مریض کی مدد کریں جوکسی جان لیوامرض میں مبتلانہ ہو،لیکن اس مدد کے ذریعے اس کی بیماری دورہوجاتی ہے۔
شریعت،احادیث کی روسے ہمارے صدقات کازیادہ مستحق کون ہے؟
۲۔ ہم چند طلبہ مل کرسوشل سروس کے ایک چھوٹے سے ادارے کوتشکیل دے رہے ہیں،جس سے ہم ضرورت مندلوگوں کی مددکرسکیں،ہم حکومت کی ذمہ داریوں کونہیں لیناچاہتے،کیونکہ یہ توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے لوگوں کی دیکھ بھال کرے،ہم صرف اپنے قرب وجوار کے لوگوں کی مددکرناچاہتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی بتائیں کہ صدقات کااستعمال سب سے زیادہ افضل کہاں ہوگا،مریض پر،کسی کی تعلیم وتربیت پریاکسی ضرورت مند کواشیائے خورونوش دینے پر؟یااس سے بھی کوئی افضل کام ہوسکتاہے؟اس پربھی مشورہ دیجئے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صدقہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں،بلکہ اس کی فضیلت ایک امراضافی ہے جومختلف اعتبارات سے مختلف ہوسکتی ہے،مثلاصدقہ کرنے والے کی حالت کے اعتبارسے، فقیرکاصدقہ مالدارکے صدقہ سے افضل ہے،اورتندرست اورصحیح آدمی کاصدقہ مرض الموت میں مبتلاء شخص سے افضل ہے۔
اسی طرح جس پرصدقہ کیاجائےاس کے اعتبارسے بھی فرق ہے مثلا عزیزواقارب پرصدقہ وخیرات کرناعام آدمی کودینے سے افضل ہے،محتاج کودیناغنی کے مقابلے میں افضل ہے۔
اسی طرح جوچیز صدقہ کی جارہی ہے اس کے اعتبارسے بھی فرق ہوگا،مثلاایک حدیث میں علم سیکھ کراس کوسکھانے کوافضل کہاگیاہے،دوسری جگہ بھوکے کوکھاناکھلانےکو افضل صدقہ شمارکیاگیاہے،ایک اورجگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاسے کوپانی پلانے کوافضل صدقہ فرمایا۔
الغرض یہ کہ صدقہ کی افضلیت مختلف حالات کے اعتبارسے مختلف ہوسکتی ہے،البتہ کسی بھی صدقہ کی عنداللہ قبولیت کے لئے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ صدقہ کرنے والے کے پیش نظر صرف اللہ تعالی کی رضاوخوشنودی ہو،ریاکاری اوردکھاوامقصودنہ ہو،ورنہ ساری دنیابھی صدقہ کردے تو بجائے ثواب کے گناہ کااندیشہ ہے۔
لہذاکسی بھی مریض کی مددکرنااوراس کے علاج میں تعاون کرنااللہ تعالی کی خوشنودی کاباعث ہے،باقی مریض کا شفایاب ہونایانہ ہونایہ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں،اس لئے دینے والے کواس کی طرف نظر کئے بغیر محض اللہ کی رضاکی خاطر دے دیناچاہئے،کیاپتامہلک مرض والاشخص اسی علاج کے نتیجے میں شفایاب ہوجائے،جس طرح یہ بھی امکان ہے کہ معمولی مرض والاشخص شفایاب نہ ہواورمرجائے۔
اسی طرح کسی کوتعلیم کی خاطر صدقہ دینا،یاکسی ضرورت مند کوگھرکاسامان لے کردینایہ سب صورتیں اپنی اپنی جگہ افضل ہیں۔
حوالہ جات
"سنن ابن ماجه " 1 / 89:
عن أبي هريرة - أن النبي صلى الله عليه و سلم قال ( أفضل الصدقة أن يتعلم المرء المسلم علما ثم يعلمه أخاه المسلم )
"مشكاة المصابيح " 1 / 438:
"شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي"3 / 217:
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أفضل الصدقة أن تشبع كبدا جائعا " . رواه البيهقي في شعب الإيمان۔
"سنن أبي داود "1 / 526:
عن قتادة عن سعيد أن سعدا أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال أي الصدقة أعجب إليك ؟ قال " الماء " . حسن
"السنن الكبرى للنسائي"2 / 28،29 :
عن أبي هريرة قال قال رجل يا رسول الله أي الصدقة أفضل قال أن تصدق وأنت صحيح شحيح تأمل العيش وتخشى الفقر۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل الصدقة ما كان عن ظهر غنى واليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول۔
عن جابر قال أعتق رجل من بني عذرة عبدا له عن دبر فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أيملك مال غيره قال لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يشتريه مني فاشتراه نعيم بن عبد الله العدوي بثماني مائة درهم فجاء بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فدفعها إليه ثم قال ابدأ بنفسك فتصدق عليها فإن فضل شيء فلأهلك فإن فضل عن أهلك شيء فلذي قرابتك فإن فضل عن ذي قرابتك شيء فهكذا وهكذا يقول بين يديك وعن يمينك وشمالك۔