عرض یہ ہے کہ میری ایک عزیزہ ہیں جن کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے ، اور والدین بھی حیات نہیں ، شوہر کی دوسری بیوی سے اولاد ہیں ،نیز ان کی بہن بھائی اور ان کی اولا حیات ہیں ۔ مذکورہ خاتون کی ملکیت میں ایک مکان ہے اور چند لاکھ روپے ہیں ان کی خواہش ہے جبتک زندہ ہے وہ اس مال سے فائدہ حاصل کرتی رہے اورمرنے کےبعد ان کا کل مال صدقہ جاریہ میں لگ جائے، میراث میں تقسیم نہ ہو اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرتے وقت جومال ملک میں ہوتاہے اس میں میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں،لہذا موجودہ حالت میں مذکورہ خاتون کے انتقال کی صورت میں اس وقت ان کے بھائی بہنوں میں سے جوزندہ ہونگے وہ وراث ہونگے ۔ اگر ان کی خواہش ہےکہ ان کا ترکہ صدقہ جاریہ بن جائے تو اسکےلئے ضروری ہےکہ کوئی ایسی صورت اختیار کرے کہ مرتے وقت مال ان کی ملک میں باقی نہ رہے ۔ مثلا زندگی میں مکان کو اس طرح وقف کردے کہ یہ فلاں مسجد ،مدرسہ یا فلاں رفاہی ادارہ پر وقف ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس سے فائدہ حاصل کرتی رہونگی ،پھر میری موت کے بعد یہ فلاں مسجد ،مدرسہ یافلاں رفاہی ادارہ کو دیدیا جائے ۔ اسی طرح نقد رقم میں سے اپنے اخراجا ت کیلئے مناسب رقم الگ کرکے باقی مذکورہ بالامدات میں لگا دی جائے ۔
حوالہ جات
( وجاز جعل غلة الوقف ) أو الولاية ( لنفسه عند الثاني ) وعليه الفتوى
وقال ابن عابدین رحمہ اللہ تحت ( قوله : وجاز جعل غلة الوقف لنفسه إلخ ) ، وأما اشتراط الغلة لمدبريه وأمهات أولاده فالأصح صحته اتفاقا لثبوت حريتهم بموته ، فهو كالوقف على الأجانب وثبوته لهم حال حياته تبع لما بعدها ، وقيد بجعل الغلة لنفسه لأنه لو وقف على نفسه قيل : لا يجوز وعن أبي يوسف : جوازه وھو المعتمد
( قوله : وعليه الفتوى ) كذا قاله الصدر الشهيد وهو مختار أصحاب المتون ورجحه في الفتح واختار مشايخ بلخ وفي البنجر عن الحاوي أنه المختار للفتوى ترغيبا للناس في الوقف وتكثيرا للخير .