میرے بھائی تاج الرحمن کے محمد یوسف کی پیدائش کے سات ماہ بعد میرا بیٹا محمد طاہر پیدا ہوا طاہر کے بارے میں اس کی چچی یعنی یوسف کی والدہ کو شک ہے کہ اس نے میرا دودھ پیا ہے ۔حالانکہ اس کا بیٹا سات ماہ پہلے وفات پاگیاتھا ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے بیٹے محمد طاہر کا نکاح میرے بھائی کی بیٹی سے جائز ہے یانہیں ؟صرف چچی کی شک کی بناء پر رضاعت ثابت ہوگی یانہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۔بچہ پیدائش کےبعد ڈھائی سال کی مدت کےاندراندر اگر کسی عورت کا دودھ پی لے تو اس سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ۔ چاہے دودھ پلانے والی عورت کا بچہ زندہ ہو یا وفات پاچکا ہو دونوں کا ایک ہی حکم ہے ۔
۲۔رضاعت کے اثبات کےلئے اقرار یا نصاب شہادت یعنی دومرد یاایک مرد دو عورتوں کی شہادت ضروری ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر رضاعت کے بارے میں دومرد یاایک مرد دوعورتوں کی شہادت موجود ہوتو حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی اگر چہ ان کابچہ سات ماہ پہلے انتقال کرچکاہو ۔ اور اگر رضاعت پر گواہ موجود نہیں ہے تو صرف ایک عورت کے دعوے سے حرمت ثابت نہ ہوگی ۔ تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں رشتہ نہ کیاجائے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 224)
(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي
(قوله حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قبله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الرفع.