021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدارکوکمیشن دینے کی شرط کے ساتھ کھادبیچنا
59045خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

بینک میں کام کرنے والے ایک فرد نے مجھے اس بات پر مجبور کیا ہے کہ ہمارے ہیڈ آفس نے فی کس ڈرافٹ پر 1500 روپے کمیشن مانگا ہے،یعنی ایک وقت کی خریداری جو کہ150000 سے 200000 تک کی ہوتی ہے، بعض اوقات 250000 کی بھی ہوتی ہے، اس پر بینک ہم سے 1500 روپے کمیشن مانگتا ہے، کیا اس شرط پر بینک کو کھاد بیچنا جائز ہے؟ اور کمیشن دینا کیسا ہے؟ برائےمہربانی اس کا جلد از جلد جواب دیا جائے۔ وضاحت: سائل نے فون پر بتايا كہ بينك كی كميشن لينے كی كوئی پاليسی نہيں ہے، يہ نمائنده ہميں اپنے طور پر كميشن دينے پر مجبور كر رہا ہے، یہ بھی واضح رہے کہ ہمارا خریدوفروخت کا معاملہ بینک کے مینیجر سے ہوتا ہے اور وہی ہمار ے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کرتا ہے، یہ شخص صرف کھاد کی پرچی وغیرہ بنانے کے لیے نمائندہ بن کر آتا ہے۔البتہ یہ مینیجر کو ہم سے خریداری کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذكوره صورت ميں بينك كے ملازم كی حيثيت وكيل بالقبض (خریدی گئی چیز پر قبضہ کرنے كا وكيل) كی ہے اور اس كا يہ شرط لگانا كہ ايك خريداری پر پندرہ سو روپيہ كميشن ديا جائے، شرعاً جائز نہیں، كيونكہ یہ نمائندہ بینک کا باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہے اور کھاد وغیرہ پر قبضہ کرنا اس کی ڈیوٹی میں شامل ہے، اس لیے اس کا کمیشن کا مطالبہ کرنا در اصل رشوت ہے، لہذا آپ كا بينك كے نمائنده كو كميشن دينا اور اس كا كميشن لينا دونوں امر جائز نہيں۔
حوالہ جات
العناية شرح الهداية (11/ 206) والوكيل بقبض العين لا يكون وكيلا بالخصومة ) بالاتفاق لأنه أمين محض ، والقبض ليس بمبادلة فأشبه الرسول ( حتى أن من وكل وكيلا بقبض عبد له فأقام الذي هو في يده البينة أن الموكل باعه إياه وقف الأمر حتى يحضر الغائب ) وهذا استحسان ۔ حاشية ابن عابدين (5/ 362) الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق لأنه واجب عليه۔ الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والرابع ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب ا هـ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب