021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر نفع لینے کا حکم
60114 سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

سائل نے ایک شخص سے قرض پیسے لیے، اس پر سائل نے زمین خریدی، لیکن یہ زمین سائل نے اجرت والے شخص کے ذریعے خریدی۔ سائل نے جس شخص سے قرض لیا تھا اس نے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا تو سائل نے دوسرے آدمی سے پیسے لیے اور اُس پہلے شخص کو دیے۔ سائل نے اس دوسرے آدمی کو بتایا کہ جب یہ زمین بک جائے گی تو میں آپ کو اپنی خوشی سے منافع میں حصہ دوں گا، لیکن تعین نہیں کیا کہ کتنا حصہ دیں گے۔ اور ہم نے تعین اس لیے نہیں کیا کہ کہیں یہ سود نہ بن جائے، ہمیں مسئلے کا پتہ نہیں تھا، بعد میں پتہ چلا کہ بغیر تعین کے یہ معاملہ فاسد ہے۔ جس شخص کو منافع کا بولا تھا اس نے بھی کہا کہ یہ منافع میں نہیں لیتا جب یہ صحیح نہیں، تو سائل نے کہا ٹھیک ہے۔ بعد میں اس شخص نے کہا مجھے کسی شخص نے بتایا کہ سائل سے کہو کہ جتنا منافع اس زمین میں ملے اس میں سے آدھا یا تیسرا حصہ منافع میں دیں، تو کیا یہ پہلی صورت اور دوسری صورت ایک جیسی نہیں ہیں؟ تعین تو دونوں میں نہیں ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے: یہ زمین میں نے ان پیسوں سے لی تھی جو میں نے پہلے قرض لیے تھے، اور اس دوسرے شخص کے پیسے میں نے اس قرض کی ادائیگی میں دیے ہیں، ان سے زمین نہیں لی۔ اس شخص نے جو پیسے دیے تھے اس میں 4 مہینے کی مدت مقرر کی تھی جس میں دو مہینے تاخیر ہوگئی ہے۔ سائل نے جس اجرت والے کے ذریعے زمین لی تھی اس نے دھوکہ کرکے وہ زمین اپنے لیے فروخت کردی، ابھی تک سائل کو پیسے دیے نہ زمین۔ سائل نے جس شخص سے پیسے لیے تھے اس نے اپنے 22 لاکھ میں سے 19 لاکھ وصول بھی کرلیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے: یہ شخص جو آدھے یا تیسرے حصے منافع کا مطاالبہ کررہا ہے، یہ جائز ہے یا ناجائز؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیلات درست ہیں اور واقعۃً آپ نے مذکورہ شخص سے پیسے بطورِ قرض لیے تھے تو آپ کے سوال کا جواب یہ ہے: ” سائل کے ذمے لازم ہے کہ قرض خواہ کو اس کی بقیہ رقم واپس کرے۔ البتہ اگر سائل واقعۃً مجبور ہے اور فی الحال ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا تو قرض خواہ کو چاہیے کہ نرمی کا معاملہ اختیار کرتے ہوئے اس کو کچھ مہلت دے۔ باقی قرض خواہ کا زمین کے منافع میں سے آدھے یا تیسرے حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ یہ قرض پر نفع لینے کے زمرے میں آتا ہے جوکہ سود میں داخل ہے“۔

حوالہ جات
القرآن الکریم ــــــــ : {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ} [البقرة: 280] السنن الكبرى للبيهقي (5/ 573) ــــــــ : عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا " .

عمار میر: معاملات

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

11/05/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے