021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع مجہول اورانتقال سےرہ جانے والے خسارہ کی موجودہ قیمت طلب کرنا
60176خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

میں نے 1994ء میں اپنی دو پھوپھیوں سے ایک زمین خریدی جو ان کو والدین یعنی والد اوروالدہ کی طرف سے ملی تھی ،معاملہ طے کرتے وقت لَم سَم رقم طے کرلی گئی اورمکمل حصےکا سودا طے ہوگیا،اس وقت زمین کے خریدارکو بھی پتہ نہیں تھاکہ ان کی کل ملکیت کتنی ہے اورنہ بیچنے والیوں کوپتہ تھاکہ وہ کتنی زمین بیچ رہی ہیں ،بس مکمل حصے پر بات پکی ہوگئی،محکمہ مال میں پٹواری سے بات کی تو اس نے کہاکہ مختلف خسروں میں ان کاحصہ بنتاہے، میں مکمل کاغذات دیکھ کرانتقال بنادوں گا،یوں فریقین راضی ہوگئےاورپھر انتقال کردیاگیااوررقم کا لین دین بھی مکمل ہوگیا،فریقین اس پر مطمئن ہوگئے، اس کے بعد اس پر کوئی بات نہیں ہوئی، 2016/2017 میں کسی اورغرض سے محکمہ مال میں کاغذات دیکھے گئے توپتہ چلاکہ ایک خسرہ کی بقدرجگہ انتقال سے رہ گئی ہے ،اس کی وجہ پتہ نہیں شاید پٹواری سے خسرہ لکھنے میں رہ گیاہے یا اس کاسبب کچھ اورہے،اس کے بعد پھوپھیوں سے بات کی کہ زمین کی قیمت توآپ 1994میں سوداطے کرتے وقت وصول کرچکی ہیں،لیکن غلطی سے یہ زمین انتقال سے رہ گئی ہے، اس لیے آپ دوبارہ بیان دیدیں تاکہ انتقال مکمل ہوسکے،چاہےیہ غلطی جان بوچھ کرکی گئی ہویا پٹواری سے غلطی سے ہوگئی ہوبہرحال یہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، آپ نے توپورے حصے کی مکمل رقم وصول کی ہے،ان کاجواب یہ تھاکہ اس وقت توساری زمین دیدی تھی لیکن یہ خسرہ بوجوہ قدرتی طورپرلکھنے سے رہ گیاہے ، اب آپ کواس زمین کی موجودہ ریٹ کے مطابق دوبارہ رقم دینی ہوگی یاپھر ہمیں ہماری زمین واپس کرنی ہوگی ،جبکہ باربار استفسار پر وہ یہ بات مانتی ہے کہ 1994کا سودا مکمل حصے کا ہوا تھا اوررقم بھی وصول کرلی تھی، لیکن اب یہ قانونی طورپرہمارا حق بن گیا ہے، لہذا اب ہم ز مین کی موجودہ قیمت لیں گی یا پھر ہماری زمین چھوڑ دو۔اس تمہید کے بعداب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ 1۔کیا وہ زمین یا اس کی موجودہ ریٹ کی قیمت دوبارہ وصول کرسکتی ہیں؟ جبکہ 1994ءکے سودے کے مطابق مکمل حصےکا سودا کرچکی ہیں اوررقم بھی لے چکی ہیں ؟ 2۔کیا اس زمین کی دوبارہ لی گئی قیمت سے وہ کوئی فلاحی کام ثواب کی نیت سے کرسکتی ہے؟ مثلاًمسجد بنوانا، قربانی کرناوغیرہ وغیرہ ،قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں، میں خدا کو حاضرناظر جان کرلکھ رہاہوں کہ یہ بیان درست ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے یہ سمجھیں کہ مسئولہ صورت میں چونکہ بائع کی طرح مشتری کوبھی پتہ نہیں تھاکہ بائع کا حصہ (جس کووہ خرید رہاہے) کتناہے، لہذا یہ بیع مبیع مجہول ہونے کی وجہ سے فاسد ہے اوراس کاحکم یہ ہے کہ جس دن مشتری نےاس زمین پر قبضہ کیاتھا اس دن مارکیٹ میں جو اس کی قیمت تھی وہ خریدارپر واجب ہوگی اوروہ ثمن مشتری کو واپس کرےگا۔اب آپ کے سوالوں کاجواب درج ذیل ہے: 1۔شرعاً انتقال کرانا نہ کرانا کوئی ضروری نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں بائع کا انتقال کئے جانے والے خسارہ کا موجودہ ریٹ طلب کرناجائزنہیں،بلکہ اس کو انتقال سے رہ جانے اورانتقال میں آنے والے تمام خساروں کی یوم القبض کی قیمت ملے گی اوراس کو ثمن واپس کرناہوگا۔لہذا اگروصول کیاجانے والاثمن یوم القبض کی قیمت کے برابرہےتو ٹھیک ہے اوراگر زیادہ ہے تو جتناحصہ زیادہ ہے اتنابائع مشتری کو واپس کرے گا اوراگر کم ہےتویوم القبض کی قیمت پوری کرنےکے لیے اتنامشتری بائع کو دے گا۔ 2۔خسارہ کی قیمت اگردوبارہ لی جائےگی تووہ حرام ہوگی اورفروخت کنندہ کی ملکیت میں نہیں آئے گی ،لہذا اس سے فلاحی کام نہیں ہوسکے گے۔
حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 267) ولو قال بعت منك نصيبي من هذه الدار فشرط الجواز علم المشتري بنصيبه دون علم البائع وتصديق البائع فيما يقول. المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 464) قال: لو باع نصيباً من دار والمشتري لا يعلم لا يجوز البيع لجهالة المبيع فدل أن المستأجر مشاع مجهول، ولو كان مشاعاً معلوماً بأن أجر النصف أو الثلث لم يجز عنده، فإذا كان مشاعاً مجهولاً أولى أن لا يجوز.وعلى قول أبي يوسف لا يشكل أنه يجوز؛ لأن جهالة النصيب عند المشتري لا تمنع جواز البيع عنده، حتى قال: إذا اشترى نصيباً من دار ولم يعلم مقداره جاز وله الخيار إذا علم بالنصيب بعد ذلك فلا يمنع جواز الإجارة أيضاً، فإذا لم يجز أن يمنع الجواز؛ لأجل هذه الجهالة على مذهبه بقي بعد ذلك مجرد الشيوع والشيوع غير مانع من الإجارة، وإنما الأشكال على قول محمد، وذلك لأن جهالة النصيب عنده يمنع جواز البيع فيجب أن يمنع جواز الإجارة أيضاً، وإن كان الشيوع لا يمنع الجواز على مذهبه ولكن من مشايخنا من قال: بأن قول محمد ها هنا يلحق بقول أبي حنيفة لا بقول أبي يوسف؛ لأنه كما ذكر قول محمد عقيب قول أبي يوسف، فقد ذكر قول أبي حنيفة فيلحق قوله بقول أبي حنيفة، أن لا تجوز هذه الإجارة على قول أبي حنيفة وهو قول محمد، فعلى هذا لا يثبت الرجوع عن محمد في البيع.ومنهم من قال: قول محمد يلحق بقول أبي يوسف، يعني تجوز الإجارة على قوله، واختلفوا فيما بينهم منهم من أثبت رجوع محمد عما ذكر في البيع؛ لأن جهالة النصيب إذا لم يمنع جواز الإجارة لا يمنع جواز البيع، ومنهم من لم يثبت رجوع محمد عن فصل البيع وفرق على قوله بين الإجارة والبيع.والفرق: وهو أن الإجارة تنعقد ساعة فساعة في حق المنافع، والأجرة تجب عند استيفاء المنافع، وعند الاستيفاء النصيب معلوم، فأما البيع ينعقد حال وجوده والمبيع حال وجود البيع مجهول، فلا يجوز.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب