ایک شخص گھر خرید تا ہے دستور کے مطابق پہلے کچھ بیعانہ جمع کیا جاتا ہے بقیہ رقم ادائیگی کےمقررہ وقت دیجا تی ہے ، لیکن اگر مشتری متعین شدہ وقت پر پیسے اد ا نہ کرے توبیعانہ ضبط ہوجاتا ہے ، بیعانہ کی ضبطی کا شرعا کیا حکم ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کوئی اس شرط پر عقد کرے کہ اگر مشتری مقررہ وقت پر رقم ادا نہ کرے تو بیعانہ کی رقم ضبط ہوجائے گی، یہ شرط فاسد ہے ،اس شرط پر عقد کرنا جائز نہیں ، اگر کسی نے اس شرط پر عقد کرلیا تو اس عقد کو ختم کرنا اور بیعانہ کی رقم واپس کرنا ضروری ہے ، اگر بیعانہ ضبط کرنے کی شرط کے بغیر عقد کیا بعد میں مشتری نے مقررہ وقت پر رقم ادا نہیں کی اس لئے بیعانہ ضبط کرلیا یہ بھی ناجائز اور حرام ہے ،لہذااگر عقد کسی وجہ سے ختم ہوجائے تواس کے ذمہ لازم ہے کہ بیعانہ کی رقم واپس کردے ۔
حوالہ جات
کماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ انہ نھی عن بیع العربون ؛ وفی روایہ النسائی نھی عن بیع العربان ومعنا ھما واحد ﴿ ابن ماجہ رقم ۲١۹۲ابوداؤد ۳۵۰۲﴾
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84)
(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط
لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهماالی قولہ (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع،
(قوله مثال لما فيه نفع للبائع) ومنه ما لو شرط البائع أن يهبه المشتري شيئا أو يقرضه أو يسكن الدار شهرا أو أن يدفع المشتري الثمن إلى غريم البائع، لسقوط مؤنة القضاء عنه الخ