میں جانوروں کا کاروبار کرتا ہوں،چھوٹے بڑے جانورخرید کر ایک دوست کے حوالے کر دیتا ہوں،وہ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتا ہے۔میں نے اپنے دوست کو اپنےساتھ اس طرح شریک کیا ہے کہ میرےجانور وہ پالے گااور جب ان کے بچے ہو جائیں گے تو اس میں ہم دونوں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔کیا میرا اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے؟
اگر ا س طرح کاروبار کرنا ناجائز ہے تو برائے مہربانی آپ جائزطریقہ بھی بتادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کااس طرح جانور کو آئندہ ہونے والے بچوں میں شرکت کے بدلے یا نصف حصے کے عوض پرورش کے لیے اپنے دوست کودینا جائز نہیں ،تاہم اگر کسی نے اس طرح معاملہ کرلیاتوایسی صورت میں اجیر(آپ کے دوست) نے اسے جتنا چارہ اپنی ملکیت میں سے کھلایا اس کی قیمت آپ اُس کوادا کریں گے،جانور اور اس کے بچے وغیرہ آپ کے ہوں گے، نیز آپ کے دوست(اجیر) نے جتنے دن خدمت کی، اس کی اجرت مثل بھی آپ پر واجب ہوگی۔ اجرت اتنی ہوگی جتنی عام طور سے اس مقصد کے لیے اس جیسےشخص کو مزدوری پر رکھ کر دی جاتی ہو۔
اس معاملے کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کو جانور کا آدھا حصہ ھبہ یا فروخت کر دیں،فروخت کی صورت میں اس سے نصف جانور کی قیمت لے لیں یا معاف کر دیں اورآپ کا دوست بخوشی اس پر راضی ہو جائے تو اس طرح یہ جانور اور اس کے منافع ( بچے ، دودھ وغیرہ ) آپ دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے۔
حوالہ جات
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما.
(الفتاوى الهندية:4/ 445)
باب الإجارة الفاسدة: قال الإجارة تفسدها الشروط كما تفسد البيع لأنه بمنزلته ألا ترى أنه عقد يقال ويفسخ والواجب في الإجارة الفاسدة أجر المثل لا يجاوز به المسمى
(الهداية شرح البداية:3/ 238)