021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمیٹی میں دوسرے شخص کی طرف سے کفالت
60717کفالت (ضمانت) کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں : کہ میں مسمی عبد اللہ نے دوشخصوں (زید اور حامد) کے ساتھ کمیٹی ڈالی تھی، لیکن کمیٹی کے پیسے دینے والے کوئی اور تھے ،میں (عبداللہ) درمیان میں ضامن تھا(جس شخص کی کمیٹی تھی وہ ان دونوں یعنی حامد اور زید کو نہیں جانتاتھا بلکہ وہ ہر مجھے کمیٹی کی رقم دیتا تھا اور کمیٹی شروع کرتے وقت اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ کو جانتا ہوں ، ان کو نہیں جانتا ، میں نے کہا کہ آپ بے فکر ہوجائیں میں ذمہ دار ہوں) لیکن کمیٹی ختم ہونے سے پہلے (زید اور حامد) بھاگ گئے ،جن کا کوئی پتہ نہیں ہیں،اور ان کے رشتہ دار بھی ذمہ داری قبول نہیں کررہے ہیں۔ اب اس صورت حال میں ضامن کے اوپر کچھ ہے یا نہیں ؟ کل کمیٹی 60000 تھی ،ایک کمیٹی 20000 اور دوسری 40000 تھی اور کمیٹی والوں (زید اور حامد ) نے 40000 میں سے13000 دیئے ہیں، باقی رقم آیا ضامن کے اوپر ہے یا نہیں۔ اب کمیٹی ڈالنے والے ضامن سے مطالبہ کررہےہیں کہ باقی پیسوں کے آپ ذمہ دارہے کہ ہم نے آپ کی وجہ سے کمیٹی ڈالی تھی، کیونکہ درمیان میں آپ ضامن تھے، اور ہم لوگ کمیٹی والوں (زید اور حامد) کو نہیں جانتے تو آیا ضامن (عبداللہ) کے اوپر شرعا کچھ ہے یا نہیں ؟ اور اگر بطور ضامن کچھ رقم ادا کی ہے تو اس کی حیثیت کیا ہوگی؟قرآن کریم ، احادیث مبارکہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت کفالت بالمال(ضمانت ) کی ہے، اور شرعا اگر مکفول عنہ (وہ شخص جس کی طرف سے کفیل ضامن بنا) مال ادا نہ کرے تو کفیل (ضامن) کے ذمہ مال کی ادائیگی لازم ہوگی۔ لہذا مذکورہ صورت میں عبد اللہ نامی شخص چونکہ درمیان میں شرعا کفیل ہے،اس لیے کمیٹی کی باقی ماندہ رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری اس پر ہے ۔
حوالہ جات
" (قوله: - عليه الصلاة والسلام - «الزعيم غارم» ) أي يلزمه الأداء عند المطالبة به، فهو بيان لحكم الكفالة، والحديث كما في الفتح رواه أبو داود والترمذي وقال حديث حسن. وقد استدل في الفتح لشرعيتها بقوله تعالى - {ولمن جاء به حمل بعير وأنا به زعيم} [يوسف: 72]-" (رد المحتار:5/ 285) "وشرعا (ضم ذمة) الكفيل (إلى ذمة) الأصيل (في المطالبة مطلقا)۔۔۔۔ (وركنها إيجاب وقبول) بالألفاظ الآتية ولم يجعل الثاني ركنا(وشرطها كون المكفول به) نفسا أو مالا (مقدور التسليم) من الكفيل فلم تصح بحد وقود (وفي الدين كونه صحيحا قائما)۔۔۔ (وحكمها لزوم المطالبة على الكفيل) بما هو على الأصيل نفسا أو مالا۔" (الدر المختار: 5/ 281) "والأصل أن المغرور إنما يرجع على الغار إذا حصل الغرورفي ضمن المعاوضة، أو ضمن الغار صفة السلامة للمغرور نصا درر، وتمامه في الأشباه ومر في المرابحة.[فروع] ضمان الغرور في الحقيقة هو ضمان الكفالة." (الدر المختار: 5/ 332)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب