021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جس شہد پر زیادہ خرچہ آتاہو اس میں عشرہوگایانصفِ عشر؟
60043 زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرا نام زاہد ہے اورمیں شہدکی مکھیوں کا کاروبار کرتا ہوں، ہمارا کاروباری سال نومبرسے شروع ہوتاہے ،ہم مکھیوں کو چینی کھلاتے ہیں اوروہ سرسوں کے پھول سے گردلاتے ہیں اوربچے دیتے رہتے ہیں تقریباً چار ماہ تک ،پانچ مہینے ہم ان کو چینی کھلاتے ہیں 200بکسوں کی مکھیاں ان پانچ مہینوںمیں 60تھیلے چینی کھاتی ہیں،مارچ میں ہم انکے لیے مارکیٹ سے نئے بکس لاتے ہیں جوکہ فی خالی بکس مع تیار چھتہ کے 500روپے میں پڑتاہے، ان 200بکسوں سے پیداشدہ نئے بچوں کے لیے ہم 80یا 100نئے بکس جدا رکھ لیتے ہیں تو اس طرح یہ ٹوٹل 300بکسیں ہوجاتے ہیں، اس کے بعد اپریل میں پلائی کے شہد کےلیے پلائی کے جنگل میں لیجاتے ہیں تو وہاں پلائی کا شہد نکالکرپھرانستالہ (شفتل) کے پھول پر لیجاتے ہیں وہاں بھی تھوڑا بہت شہد نکالکر پھر دومہینے تک چینی کھلاتے ہیں پھر وہاں سے مکئ یاباجرہ کے پھول پر لیجاتے ہیں اوردو مہینے جولائی اوراگست چینی کھلاتے رہتے ہیں ،پھر وہاں سے بیرکے پھول پر لیجاتے ہیں ستمبراوراکتوبرکے مہینوں کےلیے پھر بیری کاشہد نکالکرہمارا سیزن اورکاروباری سال پوراہوجاتاہے ۔ مکھی پر خرچ کی تفصیل:مکھیوں کو چینی کھلانا،خالی بکسیں خریدنا،مزدورکی تنخواہ اورکھاناپینا،مکھیوں کا علاج معالجہ ،ایک سے دوسری جگہ لیجانے کا کرایہ، ان سب کو ملاکرسالانہ 300بکسوں پر تقریباً سات لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اورآمدنی دیگر فصلوں اورکاروبار کی طرح کبھی زیادہ اورکبھی کم ہوتی رہتی ہے ۔ مذکورہ تفصیل کے بعد اب پوچھنا یہ ہےکہ ہم اس آمدنی میں زکوۃ کس حساب سے اداکریں یعنی عشریا نصفِ عشر کے حساب سے؟ یا سالانہ آمدنی سے مثل زکوۃ کے،خرچ کے ساتھ یا خرچ کو نکالکر؟برائے کرم رہنمائی فرماکرہماری تشویش دورکریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں زکوۃ نہیں، بلکہ عشر واجب ہوگا، البتہ پوراعشر واجب ہوگا یا نصف عشر ؟ قدیم اورجدید فقہ اوراکابر کے کلام میں اس حوالے سےکوئی رہنمائی نہیں ملی، غالباًاس کی وجہ یہ ہوسکتی ہےکہ اُس وقت مکھیوں کوااس طرح پیٹیوںمیں بندکرکےان پر اخراجات نہیں کئے جاتے تھے ،یہ دورِجدید کی ایجادہوگی، اس لئے ان کا مذکورہ حکم(عشریانصفِ عشر) کتب میں موجود نہیں۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا حکم پھل میں واجب ہونے والے عشر کی طرح ہو،کیونکہ فقہاء کرامؒ نے شہدمیں وجوبِ عشرکی وجہ حدیث کےعلاوہ یہ لکھی ہے کہ شہد کی مکھیاں چونکہ پھل ،پھول کھاتی ہیں اوران میں عشر واجب ہے، اس لیے اس سے پیداہونے والی چیز(شہد) میں بھی عشر واجب ہوگا، حتی کہ اس کے لیے عشری یاجبلی زمین بھی شرط قراردیا ہے اورلکھاہے کہ خراجی زمین میں پیدا ہونے والے شہدپر عشرنہیں ،جب یہ (شہد) تمام احکام میں پھل ،پھول کے عشر کی طرح ہے تو اخراجات کے کم زیادہ ہونےکی وجہ سے عشراورنصف ِعشروالے حکم میں بھی اس کی طرح ہونا چاہیے، لہذا جہاں اخراجات شہدکے حصول کے لیے کرنے پڑتے ہوں مثلاً شیرا کھلانا اورغذا کے حوالے سے دوسرے اخراجات کرنا تو اس صورت میں نصف ِ عشرواجب ہوگا اورجہاں اخراجات اضافی چیزوں پر کرنے پڑتے ہوں مثلاً نقل وحمل کے اخراجات ،حفاظت کے لیے پیٹیوں کے اخراجات تو ان اخراجات کا اعتبارنہیں ہوگا ،اوراس صورت میں پوراعشر واجب ہوگا۔ہذا ماعندی واللہ اعلم
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (2/ 216) وعن أبي سلمة عن أبي هريرة «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كتب إلى أهل اليمن أن في العسل العشر» ، والمعنى فيه أن النحل تأكل من نوار الشجر وثمارها كما قال الله تعالى {ثم كلي من كل الثمرات} [النحل: 69] فما يكون منها من العسل متولد من الثمار، وفي الثمار - إذا كانت في أرض عشرية - العشر فكذلك فيما يتولد منها، ولهذا لو كانت في أرض خراجية لم يكن فيها شيء فإنه ليس في ثمار الأشجار النابتة في أرض الخراج شيء وبهذا فارق دود القز فإنه يأكل الورق، وليس في الأوراق عشر فكذلك ما يتولد منها. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 62) وأما قوله ليس من نماء الأرض فنقول هو ملحق بنمائها لاعتبار الناس إعداد الأرض لها ولأنه يتولد من أنوار الشجر فكان كالثمر ثم إنما يجب العشر في العسل إذا كان في أرض العشر فأما إذا كان في أرض الخراج فلا شيء فيه لما ذكرنا أن وجوب العشر فيه لكونه بمنزلة الثمر لتولده من أزهار الشجر ولا شيء في ثمار أرض الخراج ولأن أرض الخراج يجب فيها الخراج فلو وجب العشر في العسل لاجتمع العشر والخراج في أرض واحدة ولا يجتمعان عندنا، ويجب العشر في قليله وكثيره في قول أبي حنيفة؛ لأنه ملحق بالنماء ويجري مجرى الثمار، والنصاب ليس بشرط في ذلك عنده، وعندهما شرط وقد ذكرنا اختلاف الرواية عنهما.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب