021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسافتِ سفر کا اعتبارشہر کے حدود سے ہوگا
61351 نماز کا بیانمسافر کی نماز کابیان

سوال

بنوں اورکوہاٹ کے درمیان ماضی میں 85کلومیٹرکا فاصلہ تھا ،لیکن اب بنوں 10کلومیٹر کوہاٹ کی جانب وسیع ہوگیاہے ،اسی طرح کوہاٹ بھی بنوں کی کی جانب 8 کلومیٹر وسیع ہونے سے درمیانی فاصلہ اب 67کلومیٹر رہ گیاہے ،اب پوچھنایہ ہے کہ اب بنوں سے کوہاٹ اورکوہاٹ سے بنوں جانے والامسافر ہوگا یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے بطورتمہید یہ سمجھ لیں کہ اس پرتو سب علماءکا اتفاق ہے کہ مسافرپر سفر کے احکام اس وقت لگتے ہیں جب وہ شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل جائے ، جب تک وہ ان کے حدود میں رہے اس وقت تک اس کے لیے قصر کرنا جائز نہیں ،لیکن مسافتِ شرعی (77.24)کا اعتبارکہاں سے شروع ہوگا ؟آیا گھر سے نکلنے کے بعد سےیاشہر کی حدود سے نکلنے کے بعدسے اگلے شہر یاگاؤں کی حدود تک؟ یعنی مسافرجہاں سے چلا ہے اورجہاں جانےکااردہ ہے عین ان دوجگہوں کے درمیان اڑتالیس میل (77,24 کلو میٹر) کے فاصلے کا اعتبارہے یا ایک شہر کی حدود سے دوسرے شہر کی حدود تک کی مسافت کااعتبارہے؟اس بارےمیں علماءِ عصرکااختلاف ہے ،اگرچہ ایک رائے یہ ہے کہ گھر سے مقام ِمقصود تک کی درمیانی مسافت کا اعتبارہوہےخواہ دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ 77.24 کلو میٹرہو یا نہ ہو ،کیونکہ مسافت سفر میں اس مقام اور جگہ کا اعتبار ہوتاہے جہاں سے سفر شروع کیا جا رہا ہے اور جہاں تک اسے جانا ہے ،لہٰذا اگر دونوں جگہوں کا درمیانی فاصلہ مسافت ِسفر کے بقدر ہے تو شہر کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد احکام سفر جاری ہوں گےاگرچہ دونوں شہروں کی حدود کے درمیان 77.24سے کم فاصلہ ہو،لیکن اس رائے کی تائید فقہاء کرامؒ کی عبارات سے نہیں ہوتی، لہذا ہماری نظرمیں راجح اورصحیح یہ معلوم ہوتاہے کہ مسافتِ سفر کو شہر کی آبادی کے کنارے سےدوسرے شہر یاگاؤں کےآبادی کےشروع والے کنارہ تک ناپی جائے ۔اگریہ فاصلہ بقدرسفرشرعی (77,24 کلو میٹر)بنتاہوتو یہ شرعی سفر ہوگا اورسفر کنندہ پر احکامِ سفر جاری ہونگے ورنہ نہیں ۔ اب آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اب بنوںں کے حدود اورکوہاٹ کے حدود کے درمیانی مسافت مسافتِ شرعی (77.24)نہیں رہی، لہذا اب بنوں سے کوہاٹ اورکوہاٹ سے بنوںں جانے والاشرعی مسافرشمار نہیں ہوگا،اوراحتیاط بھی اسی رائے میں ہے۔

حوالہ جات
وفی بدائع الصنائع (1/94) وفعل السفر لا یتحقق الا بعد الخروج من المصر فمالم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافرا وفی بدائع الصنائع (1/94) فالذی یصیر المقیم بہ مسافرا نیۃ مدۃ السفر و الخروج من عمران المصر.... والثالث الخروج من عمران المصر فلا یصیر مسافرا بمجرد نیۃ السفر مالم یخرج من عمران المصر۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94) وأصله ما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه لما خرج من البصرة يريد الكوفة صلى الظهر أربعا ثم نظر إلى خص أمامه وقال: لو جاوزنا الخص صلينا ركعتين ولأن النية إنما تعتبر إذا كانت مقارنة للفعل؛ لأن مجرد العزم عفو، وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد الخروج من المصر فما لم يخرج لا يتحقق قران النية بالفعل فلا يصيرمسافرا. وفی شرح المنیہ : من فارق بیوت موضع ہو فیہ من مصر او قریۃ ناویا الذہاب الی موضع بینہ و بین ذلک الموضع المسافۃ المذکورۃ صار مسافرا. اس عبارت میں بھی واضح طور پر تصریح ہے کہ آدمی مسافر اس وقت بنتا ہے جب وہ شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے۔ بہشتی زیور میں بھی یہی بات ذکر ہے۔ ’’جو کوئی تین منزل چلنے کا قصد کر کے (شہر کی آبادی سے باہر۔ ناقل) نکلے وہ شریعت کے قاعدے سے مسافر ہے۔ جب اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہو گئی تو شریعت سے مسافر بن گئی اور جب تک آبادی کے اندر اندر چلتی رہی تب تک مسافر نہیں۔‘‘ (باب 21) فتاوٰی رحیمیہ میں اس سوال پر کہ اب شہر وسیع ہو گئے ہیں پورا شہر مختلف محلوں حلقوں اور کالونیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے نام جدا جدا ہوتے ہیں۔ اب سفر میں جانے والا شخص اپنے محلہ یا حلقہ کی حدود سے نکل کر مسافر بنے گا یا شہر کی حدود سے نکل کر مسافر بنے گا مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں: ’’وطن اصلی یا وطن اقامت کی آبادی سے باہر ہو جانے پر شرعی مسافر کا اطلاق ہو گا‘‘۔(ص 363 ج 6)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب