021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبلہ سے منحرف مسجدبنانے کاحکم
61337وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں کوٹ ادّو میں مساجد کا رخ ٹھیک مغرب کی طرف رکھا جاتا ہے،قطبی ستارہ کو استعمال کرتے ہوئے اورمغرب کی طرف القدس قبلہ اول موجود ہے،جبکہ مکہ مکرمہ بیت اللہ مغرب سے 20درجے یاکم وبیش جنوب کی طرف کرکے ہے، برائے کرام اس حوالےسے کافی شافی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیت المقدس شروع میں 16یا 17 ماہ تک مسلمانوں کا قبلہ رہاہے،لیکن اس کے بعد اس حکم تبدیل کردیا گیا تھا اور بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا گیا تھا جو تاحال مسلمانوں کا قبلہ ہے، اب حکم یہی ہے کہ مساجد کا رخ ٹھیک بیت اللہ کی طرف رکھنا ضروری ہے، بیت المقدس کی طرف رخ رکھنا صحیح نہیں،کوٹ ادو(جس کا طولِ بلد 70درجے اور17دقیقے اورعرض البلد30درجے اور79دقیقے ہیں) کا قبلہ ٹھیک شمال سے 102.33 درجے پر واقع ہے یعنی مغرب سے 12.33درجے پرلہذا اسی طرف مساجد کا رخ رکھناضروری ہے۔ مسجد تعمیر هونے سےپهلے خوب تحقیق سے قبله كا رخ معلوم كركے پھرتعمیر شروع کرناچاہئے، اٹکل سے یا پلاٹ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سےیا رخ بیت المقدس کی طرف رکھنے کی وجہ سےصحیح رخ سے ہٹی ہوئی مسجد بناناجائز نہیں،البتہ اگرمسجد ایک مرتبہ کسی وجہ سےٹیڑھی بن جائے تو پھر اگروہ قبلہ کے رخ سے ۴۵ درجے یا اس سے کم ہٹی ہوئی ہوتواس میں نماز جائز ہے، مسجد شہیدکرکے دوبارتعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہذاسوال میں مذکورجن مساجدکا قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھاگیا ہے گو ایسا کرنا غلط تھا تاہم اب چونکہ یہ ہوچکا اور قبلہ بھی 45 درجے کے اندر اندر آتا ہے، اس لیے ان مساجد کو گرانے اورقبلہ درست کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم اس علاقے میں نئی مساجد بناتے وقت ان کا رخ بیت اللہ کی طرف رکھنا لازم ہے ، پلاٹ سیدھا رکھنے کی خاطریا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کی خاطرٹیڑھی مسجد بنانے کی ہرگز اجازت نہیں ۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی: {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ} [البقرة: 144] تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 402) رواه البخاري عن البراء رضي الله تعالى عنه قال: لما قدم رسول صلى الله تعالى عليه وسلم المدينة فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم يحب أن يتوجه نحو الكعبة فأنزل الله تعالى: قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّماءِ إلى آخر الآية فقال: السُّفَهاءُ وهم اليهود ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ إلى آخر الآية وفي رواية أبي إسحاق وعبيد بن حميد، وأبي حاتم عنه زيادة فأنزل الله تعالى سَيَقُولُ السُّفَهاءُ إلخ. وفی رد المحتار (ج 3 / ص 335): قد علمت أنه لو فرض شخص مستقبلا من بلده لعين الكعبة حقيقة ، بأن يفرض الخط الخارج من جبينه واقعا على عين الكعبة فهذا مسامت لها تحقيقا ، ولو أنه انتقل إلى جهة يمينه أو شماله بفراسخ كثيرة وفرضنا خطا مارا على الكعبة من المشرق إلى المغرب وكان الخط الخارج من جبين المصلي يصل على استقامة إلى هذا الخط المار على الكعبة فإنه بهذا الانتقال لا تزول المقابلة بالكلية لأن وجه الإنسان مقوس ، فمهما تأخر يمينا أو يسارا عن عين الكعبة يبقى شيء من جوانب وجهه مقابلا لها ، ولا شك أن هذا عند زيادة البعد ؛ أما عند القرب فلا يعتبر كما مر ؛ فقول الشارح هذا معنى التيامن والتياسر : أي أن ما ذكره من قوله بأن يبقى شيء من سطح الوجه إلخ مع فرض الخط على الوجه الذي قررناه هو المراد بما في الدرر عن الظهيرية من التيامن والتياسر : أي ليس المراد منه أن يجعل عن يمينه أو يساره ، إذ لا شك حينئذ في خروجه عن الجهة بالكلية ، بل المفهوم مما قدمناه عن المعراج والدرر من التقييد بحصول زاويتين قائمتين عند انتقال المستقبل لعين الكعبة يمينا أو يسارا أنه لا يصح لو كانت إحداهما حادة والأخرى منفرجة بهذه الصورة : والحاصل أن المراد بالتيامن والتياسر الانتقال عن عين الكعبة إلى جهة اليمين أو اليسار لا الانحراف ، لكن وقع في كلامهم ما يدل على أن الانحراف لا يضر ؛ ففي القهستاني : ولا بأس بالانحراف انحرافا لا تزول به المقابلة بالكلية ، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا للكعبة .ا هـ .وقال في شرح زاد الفقير : وفي بعض الكتب المعتمدة في استقبال القبلة إلى الجهة أقاويل كثيرة وأقربها إلى الصواب قولان : الأول أن ينظر في مغرب الصيف في أطول أيامه ومغرب الشتاء في أقصر أيامه فليدع الثلثين في الجانب الأيمن والثلث في الأيسر والقبلة عند ذلك ، ولو لم يفعل هكذا وصلى فيما بين المغربين يجوز ، وإذا وقع خارجا منها لا يجوز بالاتفاق ا هـ ملخصا .وفي منية المصلي عن أمالي الفتاوى : حد القبلة في بلادنا يعني سمرقند : ما بين المغربين مغرب الشتاء ومغرب الصيف ، فإن صلى إلى جهة خرجت من المغربين فسدت صلاته ا هـ وسيأتي في المتن في مفسدات الصلاة أنها تفسد بتحويل صدره عن القبلة بغير عذر ، فعلم أن الانحراف اليسير لا يضر ، وهو الذي يبقى معه الوجه أو شيء من جوانبه مسامتا لعين الكعبة أو لهوائها ، بأن يخرج الخط من الوجه أو من بعض جوانبه ويمر على الكعبة أو هوائها مستقيما ، ولا يلزم أن يكون الخط الخارج على استقامة خارجا من جبهة المصلي بل منها أو من جوانبها كما دل عليه قول الدرر من جبين المصلي ، فإن الجبين طرف الجبهة وهما جبينان ، وعلى ما قررناه يحمل ما في الفتح والبحر عن الفتاوى من أن الانحراف المفسد أن يجاوز المشارق إلى المغارب ا هـ فهذا غاية ما ظهر لي في هذا المحل ، والله تعالى أعلم حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’اوپر کی گنجائش بنی ہوئی مساجد کے لیے مذکورہوئی ہے ،تاکہ جمہورمسلمین کا تخطیہ لازم نہ آئے لیکن قصداً مسجد منحرف بناناجس میں مفسدہ مذکورہ یعنی تخطیہ سے زیادہ مفاسدہیں جیسے افتراق بین المسلمین واطالتِ لسان معترضین وجسارت عوام علی الخروج عن الحدودواستخفاف حدود وامثالھاخلاف مصلحت ہے نظیرہ مامر من عدم اعتبارالنجوم فی المساجد القدیمۃ وفی اعتبارھافی المفاوز،ان مفاسد کے مقابلہ میں رقبہ کا کم ہونا اھون ہے‘‘(امداد الفتاوی1/197) حضرت مولانامفتی محمود حسن گنکوہی ؒ فرماتے ہیں: ’’دیدہ دانستہ انحراف کے ساتھ (مسجدکی)تعمیر ہرگزنہ کی جائے ،ہوسکتاہے کہ ابتداء سابقہ مسجد بنانے کے لیے پورالحاظِ قبلہ کا نہ ہوسکاہو ،کوئی ذریعہ علم کا نہ ہو،اب صحیح علم کا ذریعہ موجود ہے، دیگرمساجد کو کوبھی دیکھ لیاجائے ،قطب نماسے بھی اندازہ کرلیاجائے تب تعمیر کی جائے‘‘(فتاوی محمودیۃ 5/530) حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں : قصداًباوجود علم کے نودس درجے کے انحراف کو نظر انداز کردینا اورغلط سمت پر نماز پڑھنامسلمانوں کے قلوب میں خطرات ووساوس پیداکرنے …….کا موجب ہوگا،اس لیے مسجد میں صحیح سمت کےنشان قائم کرکے ہی نماز ادا کرنی چاہئیں (کفایۃ المفتی 3/175) نیزفرماتے ہیں : قدرے انحراف کرکے رخ بالکل سیدھا کرلیں تو خلفشارنہ رہے اورسب کو سکون حاصل ہوجائے(حوالہ مذکورہ 5/535) نیزفرماتے ہیں : ’’قصداًغلط سمت پرنماز ادا کرنا مکروہ ہے ان دونوں کو نمبر۲کی طرح درست کرلینا چاہیے یا جنازہ رکھنے اورصفیں قائم کرنے میں جہت نمبر۲کے موافق انحرف کرلیناچاہئے (حوالہ مذکورہ3/175)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب