عرض یہ ہے کہ میں (سیف اللہ)، میرے والد صاحب اور میرے ایک چھوٹے بھائی، ہم تینوں کام کاج کرتے تھے۔ میرے چھوٹے بھائی کراچی میں رکشہ چلاتے تھے، جبکہ میں اور میرے والد صاحب سعودی عرب میں الگ الگ گاڑی چلاتے تھے۔ ہم سب ایک گھر میں ساتھ رہتے تھے، گھر کا خرچہ مشترکہ طور پر چلتا تھا، ہم اپنی کمائی والد صاحب کو دیتے تھے، کیونکہ وہ گھر کے سربراہ تھے۔ اس دوران مشترکہ کمائی سے ہم نے ایک گھر اور ایک ایکسویٹر مشین (کھدائی کی مشین) خریدی۔ اب ہمارے والد صاحب نے دوسری شادی کرلی ہے اور اس دوسری بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہتے ہیں۔ ہماری والدہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس گھر اور مشین کا کیا حکم ہوگا؟ اس میں میرا، میرے بھائی اور میرے والد صاحب کا کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟ دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ کیا اس گھر اور مشین میں ہماری اپنی والدہ اور سوتیلی والدہ کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ: ہم والد صاحب کو اپنے پیسے اس لیے دیتے تھے تاکہ وہ گھر کا نظم چلائیں کیونکہ وہ گھر کے بڑے تھے۔ بطورِ ملکیت دینے کی نیت نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں عرف یہ ہے کہ اگر والد صاحب اور بیٹے سب کماتے ہوں اور بیٹے اپنی اپنی کمائی والد صاحب کو دیتے ہوں اور گھر کا خرچہ مشترک طور پر چلتا ہو تو ایسی صورت میں ہر شخص اپنی اپنی کمائی کا مالک سمجھا جاتا ہے، مشترکہ رقم سے خریدی گئی جائیداد تقسیم کرتے وقت جرگہ میں والد صاحب اور بیٹوں کو اپنا اپنا حصہ دیا جاتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور واقعتاً آپ دونوں بھائی اپنی اپنی کمائی والد صاحب کو بطورِ ملکیت نہیں دیتے تھے تو یہ گھر اور مشین آپ دونوں بھائیوں اور والد صاحب کی مشترکہ ملکیت ہے۔ ان کی خریداری میں جس کی جتنی رقم خرچ ہوئی ہے وہ اس کے بقدر حصے کا مالک ہے۔ البتہ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کس کی کتنی رقم خرچ ہوئی ہے تو پھر آپ تینوں اس گھر اور مشین میں برابر کے شریک ہیں۔ لہٰذا تقسیم کے وقت اس گھر اور مشین کی مارکیٹ میں جو قیمت ہوگی اس قیمت کے تین حصے کرکے ہر ایک شریک کو ایک، ایک حصہ ملے گا۔ اگر کوئی ایک شریک دوسرے شرکاء کا حصہ خرید کر ان کو ان کے حصوں کی قیمت دینا چاہے تو یہ بھی درست ہے، یا پھر کسی تیسرے شخص کو بیچ کر حاصل شدہ قیمت کو آپس میں تقسیم کرلیں۔
واضح رہے کہ آپ کی اپنی والدہ یا آپ کی سوتیلی والدہ کا اس گھر اور مشین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
حوالہ جات
تنقيح الفتاوى الحامدية (4/ 420):
في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟ أجاب: هي للابن، تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه . وأما قول علمائنا "أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله" فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط: منها: (1) اتحاد الصنعة (2)وعدم مال سابق لهما (3)وكون الابن في عيال أبيه، فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب، وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم " لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع"، فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ. ...... وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله: إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه، وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه، وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه، وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه، وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال، وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثاً بيقين، والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.
رد المحتار (4/ 325):
قوله ( وما حصلاه معاً، الخ ) يعني ثم خلطاه وباعه فيقسم الثمن على كيل أو وزن ما لكل منهما وإن لم يكن وزنيا ولا كيليا قسم على قيمة ما كان لكل منهما وإن لم يعرف مقدار ما كان لكل منهما صدق كل واحد منهما إلى النصف لأنهما استويا في الاكتساب وكأن المكتسب في أيديهما
فالظاهر أنه بينهما نصفان والظاهر يشهد له في ذلك فيقبل قوله ولا يصدق على الزيادة على النصف إلا ببينة لأنه يدعي خلاف الظاهر ا هـ فتح
مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية
تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا هـ