021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسنون ولیمہ کی کیاتعریف ہے؟
62862نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

میں ایک ریٹائرڈ فوجی افیسر ہوں اپنے بیٹے کا ولیمہ کرنا چاہتاہوں ، جو فوج میں کیپٹن ہے اس بارے میں میرا سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کے ہاں ولیمہ کی کیا نوعیت تھی ؟ بقول بعض علماء اگر شادی ھال میں پردے کا انتظام کرلیا جائے تو مرد وعورتوں کو شادی ھال میں مدعو کرلیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔جبکہ میرے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ ولیمہ صرف مرد حضرات کو مدعو کیاجائے اور عورتوں کو شادی ھال میں آنے کی زحمت نہ دی جائے ۔ آپ سے درخواست ہے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ مسنون طریقہ پر ولیمہ کاپروگرام ترتیب دے سکوں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ولیمہ کرنا لڑکے والوں کی طرف سے سنت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے شادی کے مواقع پر بروقت جو چیز میسر ہوئی اس سے ضیافت فرمایا ئی ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر گوشت اور روٹی سے دعوت ہوئی ،حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر صرف حیس ﴿حلوہ ﴾سے ،اس کے لئے خاص چیزیا خاص مقدار متعین نہیں ہے ۔لہذا اس خوشی کے موقع پر حسب توفیق جس چیز سے بھی عزیز واقارب کی ضیافت کردیجائے اس سے ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی ۔ نیز یہ کہ اگر صرف مردوں کی دعوت کردے اس بھی سنت ادا ہوجائے گی عورتوں کو دعوت میں شریک کرنا ضروری نہیں، تاہم خواتین کو دعوت میں شریک کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر پردے کا انتظام ہواور مرد وزن کااختلاط نہ ہواوراس کے علاوہ کوئی اور مفسدہ بھی نہ ہو توخواتین کو بھی دعوت میں شریک کرنا جائز ہے ۔
حوالہ جات
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (29/ 379، بترقيم الشاملة آليا) قوله ما أولم على زينب أي زينب بنت جحش قوله أولم بشاة هذا ليس للتحديد وإنما وقع اتفاقا وقال القاضي عياض الإجماع على أنه لاحد لأكثرها وقال بعضهم وقد يؤخذ من عبارة صاحب التنبيه من الشافعية أن الشاة حد لأكثر الوليمة لأنه قالوأكملها شاة قلت لم لا يجوز أن يكون معنى أكملها بالنسبة إلى التمر والأقط والسمن المذكورة في ولائم النبي الله صلى الله تعالى عليه وسلم أو يكون معناه أفضلها بالنسبة إلى الأشياء المذكورة عمدة القاري شرح صحيح البخاري (29/ 379، بترقيم الشاملة آليا) حدثنا ( مسدد ) عن ( عبد الوارث ) عن ( شعيب ) عن ( أنس ) أن رسول الله أعتق صفية وتزوجها وجعل عتقها صداقها وأولم عليها بحيس والحديث أخرجه مسلم في النكاح عن زهير بن حرب وغيره وأخرجه النسائي فيه عن عمرو بن منصور وغيره وقد مر وجوه في جعل العتق الصداق وأصحها أنه أعتقها تبرعا ثم تزوجها برضاها بلا صداق قوله بحيس قد مر تفسيره عن قريب فإن قلت قد مضى في باب اتخاذ السراري من طريق حميد عن أنس أنه أمر بالأنطاع فألقي فيها من الأقط والتمر والسمن فكانت وليمة قلت لا مخالفة بينهما لأن هذه من أجزاء الحيس حدثنا ( فروة ) حدثنا ( علي بن مسهر ) عن ( هشام ) عن أبيه عن ( عائشة ) رضي الله عنها تزوجني النبي فأتتني أمي فأدخلتني الدار فإذا نسوة من الأنصار في البيت فقلن على الخير والبركة وعلى خير طائر عمدة القاري شرح صحيح البخاري (29/ 360، بترقيم الشاملة آليا) فالترجمة موضوعة على الصحة وبينها وبين الحديث مطابقة لأن الألف واللام في قوله باب الدعاء بدل من المضاف إليه فتقديره باب دعاء النسوة الداعيات للنسوة اللاتي يهدين العروس فالمراد بالنسوة الداعيات هي النسوة من الأنصار اللاتي كن في بيت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قبل مجيء العروس والمراد بالنسوة الهاديات هي أم عائشة ومن معها من النساء لأن العادة أن أم العروس إذا أتت بالعروس إلى بيت زوجها يكون معها نساء قليلات كن أو كثيرات فأم عائشة ومن معها والعروس هن مدعو لهن والنسوة من الأنصار اللاتي كن في البيت هن الداعيات لقوله فيه فقلن على الخير إلى آخره.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب