021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پراویڈنٹ فنڈ کے بقدر قرض لینا
61515سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

سوال: زیدآسٹریلیا میں ملازمت کرتا ہے ۔اس کی تنخواہ سے پراویڈنٹ فند کٹتا ہے۔ جو کہ حکومتی تحویل میں جاتا ہے۔جس کا طریقہ کا ر یہ ہوتا ہے کہ حکومت اس رقم کو مختلف طریقوں سے انوسٹ کرتی ہے جس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت مختلف تجار کویہ رقم قرض دیتی ہے اورپھر زیادتی کے ساتھ واپس لیتی ہےجو کہ پراویڈنٹ فند میں اضافہ سمیت شامل ہو جاتی ہے ۔قانون یہ ہے کہ ملازم عمر کے ایک خاص حصہ تک پہنچنے سے پہلے یہ رقم نہیں نکلوا سکتا ۔زید کو رقم کی ضرورت ہے لیکن اسکی عمر کم ہے۔ وہ ایسا کرتا ہے اپنے دوست بکر کو تیار کرتا ہےجو ایک تاجر ہےکہ وہ حکومت سے 40000ڈالر اپنے نام پر اپنی تجارت میں لگانے کے لیے قرض لے اور لینے کے بعد زید کو دے دے زید ضرورت پوری کرنے کے بعدتنخواہ سے بچا بچا کر لوٹاتا رہے گا اور اسپر جتنی اضافی رقم ادا کرنی پڑی وہ بھی زید ادا کرے گا ۔واضح رہے کہ یہ زید کی اپنی رقم ہے جو حکومت کے پاس ہے اس سے زیادہ نہیں نکلوا رہا۔یہ بھی واضح رہے حکومت عیسائی ہےسود کو جائز سمجھتی ہے۔ کیا زید کا یہ معاملہ درست ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئلہ کا حل سمجھنے سے پہلے دو بنیادی باتیں سمجھ لینا ضروری ہیں ١۔شرعاًنقود متعین کرنے سے بھی متعین نہیں ہوتے۔ ۲۔ کسی حکومت کے نزدیک سود جائز ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے سود لینا یا دینا جا ئز نہیں ہو جاتا۔ زید کی کٹنے والی رقم ایک مشترکہ فنڈ میں چلی جاتی ہے ۔جس کے بعد زید کا اس فنڈ میں اپنی رقم کے بقدر حصہ قائم ہو جاتا ہے۔اب زید کی رقم کی نشاندہی کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اسکو پراویدنٹ فنڈ مل نہ جائے۔اس فنڈ کے ہر ڈالر میں زید کا بھی حصہ ہے اور دیگر شرکاء کا بھی۔ لہذا بکر نے حکومت سے جو رقم قرض لی ہے وہ اکیلے زید کی نہیں بلکہ دیگر تمام شرکاء کی مشترکہ رقم ہے۔جو کہ سود کے معاملے کے ذریعے حاصل کی گئی۔ اب زید کا بکر سے رقم وصول کرنا ایک مستقل معاملہ ہے۔جو زید اور بکر کے ما بین ہو رہا ہے۔اور یہ معاملہ بھی سود پر مشتمل ہے۔لہذا زید کا اس طرح سے رقم حاصل کرنا سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ البتہ اگر بکر یا کوئی اور شخص یوں کرلےکہ وہ چیز جس کی زید کو ضرورت ہے نقد میں خرید کر مناسب نفع کے ساتھ وقت اور مقدار طے کر کےزید کو قسطوں میں فروخت کر دے جس کی ادائیگی وہ بعد میں کرتا رہے تو جائز ہے۔
حوالہ جات
(رد المحتار) (4/ 364) إن الدراهم لا تتعين بالتعيين مجلة الأحكام العدلية (ص: 204) إذا خلط اثنان ذخيرتهما بعضها ببعض أو اختلطت ذخيرتهما ببعضها بانخراق عدولهما فتصير هذه الذخيرة المخلوطة أو المختلطة مالا مشتركا بين الاثنين. (رد المحتار) (5/ 166) في الأشباه كل قرض جر نفعا حرام واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب