کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میری طرح کئی لوگ ایک الجھن کا شکارہے کہ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف تواسلام میں پردہ فرض اورتصویر کشی حرام ہے جبکہ دوسری طرف موبائل جو کہ بہت حد تک آلہ فحاشی بناہواہے ہم سب کے ہاتھوں میں ہے ،اس کی افادیت اورضرورت سے انکار نہیں ،مگر مسلمانوں کی کم فہمی اورکم علمی کیوجہ سے اس کٹھ پتلی کی ڈوریں بھی یہود ونصاری کے ہاتھوں میں ہے ،مجھے تردد یہ ہےکہ علماء اورفضلاء نے بھی اس کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے تبلیغ واشاعتِ دین کے لیے استعمال کرنا شروع کردیاہے، مگر اشکال یہ ہے کہ مذہبِ اسلام تصویر کو حرام قراردے چکاہے اوربڑے سے بڑا عالم دین بھی ہمارے نبی پاک صلی للہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ،اب ان بیانات کو خواتین بھی دیکھتی اورسنتی ہیں حضرات بھی، بچے بھی اورنوخیز بچیاں بھی اورکیونکہ عالم کا عمل حجت بن جاتاہے، اس لیے اب ہم اپنے بچوں کو پردہ محرم، نامحرم اورتصویر کے مہلک نتائج سے ڈرانہیں پاتے ،میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے اوروہ یہ ہے کہ ہم کتنے ہی ترقی یافتہ ہوجائیں مگر تدبر، حکمت اور دور اندیشی میں صحابہ کرام کی جماعت کےساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے اگر تبلیغِ دین،ا مربالمعروف اورنہی عن المنکر کے ثمرات کے حصول کےلیے تصویر کی کوئی اہمیت ہوتی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہرسنت کی طرح آپ کی تصویر کو محفوظ فرماتے ،میری مخلصانہ درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں اگر میری بات میں کچھ وزن ہے تو اپنے مدار س کے فضلاء علماء ،مشائخ اور طلبہ کو اس بات کا پابندکریں کہ وہ خوشی ،غمی اورتمام تر معاملات خالص طور پر تبلیغِ دین کے معاملے میں تصویر سے احتراز کریں اوراس کی پر زور مذمت بھی کریں تاکہ عوام خو شی اورغمی اورددوسرے مواقع پر اس چیز کی ہلاکت اوربرائی کو سمجھ کر اس سےپرہیز کریں، ایک بات اورذہن میں آتی ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر اللہ تعالی نے حضرت عمررضی اللہ کی آواز دنیاکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچایاتھا اسی طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ہاتھوں جب تعمیرِ کعبہ کی تکمیل ہوگئی تو اللہ رب العزت نے آپ کو حکم دیاکہ اعلان کریں کہ لوگ آئیں اورکعبہ کے گرد طواف کریں اورانھوں نے اعلان کیا اوراللہ تعالی نے ان کی آواز پوری دنیامیں پہنچائی ۔تو میری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ علماء تبلیغ اوراشاعتِ دین کےلیے محض اپنی آواز ریکارڈ کروائیں اورتصویر اورمووی دونوں سے احتراز کریں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تبلیغ اوردیگردینی کاموں کے لیے ڈیجیٹل تصویر استعمال کرنے حوالے سے علماءِ عصر کی تین رائے ہیں: پہلی رائے یہ ہےکہ ڈیجیٹل تصویر چونکہ تصویرنہیں بلکہ ظل یا عکس کے مشابہ ہے، لہذا تبلیغی مقاصدکے لیےبھی اس کا استعمال جائزہوگا،بشرطیکہ عورت کی تصویر نہ ہو،سترچھپاہواہو، دوسری رائے یہ ہے کہ یہ عام پرنٹ تصویروں کی طرح حرام تصویرہے،اس رائےکے مطابق تبلیغی مقاصد کے لیے اس کا بنوانااوراستعمال کرنا جائزنہیں ہوگا،تیسری رائے یہ ہے کہ یہ اگرچہ تصویرہے، لیکن ضرورت کے وقت اس کااستعمال جائزہےجیسے کہ جہاد کی ضروریات،تعلیمی ضروریات وغیرہ وغیرہ،اس رائے کے مطابق بھی تبلیغی مقاصد کے لئے اس کا استعمال جائز ہوگا، ان تین آراء میں جس کی رائے پر زیادہ اعتمادہو اس پر عمل کیاجاسکتاہے، لہذاجو علماء کے اختلاف سے بچتے ہوئے تبلیغی مقاصدکے لیے بھی اس سے استفادہ نہ کرے اس کا عمل بھی درست ہے،اورجو مجوزین کی رائے پر عمل کرتے ہوئے تبلیغی مقاصدکے لیے اس سے استفادہ کرتے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے،ہردوفریق کو اپنے رائے پر عمل کرتے ہوتے دوسرے کو برا بھلا کہنے سے گریز کرناچاہیے،ہاں اس کے غیر ضروری استعمال سے ضرور گریز کرناچاہیے،باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ نے اگر استعمال نہیں فرمایا تو مجوزین کے نزیک اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہےکہ اس وقت یہ جدید ڈیجیٹل تصویر موجود ہی نہیں تھی ،اس لیے استعمال نہیں کیا ورنہ دیگر جنگی آلات جو کفار جنگ میں استعمال کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وہ استعمال کئے ہیں اورکفار(بیزنطینوں) کے بنے ہوئے دراہم اوردنانیر بھی استعمال کئے ہیں جن پر تصاویر تھیں۔