021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں رہائش رکھنے کا حکم
62051طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

ایک عورت کا شوہر روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا ،بیوی سے اکثر لڑائی جھگڑا رہتا تھا ، ایک دن تنگ آکر فون پردوطلاق دی یعنی طلاق کی نیت سے بیوی سے کہا ,, میری طرف سے تم آزاد ہو ،، اس کے بعد جب بات ہوتی تو یہی کہتا کہ میں تم کو آزاد کرچکاہوں ۔ اس کے بعد پھر فون پر لڑائی ہوتی رہی جس کی وجہ پہلی مرتبہ طلاق دینے کے 25دن بعد گھر والوں کے نام خط بھیجا جس میں بیوی کودوسری طلاق دینے کا ذکر تھا اس کے بعدگھر والوں کو فون پر خط کاذکر کیا گھر والوں نے سمجھایا کہ ایسا نہیں کرنی ہے ، وہ خط روانہ کرچکاتھا لیکن خط گھر والوں کو نہیں ملا ۔ بعد میں اس خط کی فوٹوکاپی بیوی کو شوہر کے سامان سے ملی۔ اس کے بعد گھر والوں نے شوہر کو واپس گھر آنے پر زور دیا ، وہ دوسری خط کے ذریعہ طلاق دینے کے تقریبا ساڑھے تین ماہ کے بعد گھر واپس آیا ۔ گھر والوں نے دونوں میاں بیوی میں صلح کروادی بیوی کے بقول اس وقت عدت کے تیسرے حیض کے ایام چل رہے تھے ، صلح کے دوران ہمبستری بھی ہوئی ،اور اس سےحمل بھی ٹھہر گیا ، لیکن یہ صلح صرف پندرہ دن قائم رہی اس کے بعد تیسری طلاق دیدی ، یہ واقعہ شعبان 1438ھ کا ہے اس وقت سے ابتک بیوی شوہر کے گھر میں رہ رہی ہے ، اور شوہر بیرون ملک مقیم ہے ، ایک مقامی عالم نے مسئلہ بتایا طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،البتہ بچہ کی پیدائش تک شوہر کے گھر میں رہ سکتی ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ؟ اگر واقع ہوچکی ہیں تو خاتون کااس گھر میں رہناجائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میںشوہرنے پہلی بار فون پردی وہ واقع ہوئی اس کے بعد خط کے ذریعہ دوسری طلاق دی وہ بھی واقع ہوگئی اس کے بعد بقول عورت تیسرے حیض کے دوران صلح ہوئی ہے ،پھر ہمبستری بھی ہوئی ہے ، اسطرح پہلی طلاقوں سے رجوع پایاگیا قولاوفعلا ، اگر عورت کی یہ بات صحیح ہے کہ یہ صلح عدت کے اندر ہوئی ہے اوراس کے بعد تیسری طلاق دی گئی ہے تواس طرح مختلف تاریخوں میں دی گئیں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اب دونوں مرد اورعورت ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں ، دونوں کا میاں بیوی کی حثیت سےاکٹھے زندگی گذارنا جائز نہیں ہے ،اور بغیر حلالہ شرعیہ کے آپس میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ہے،جبتک ولادت نہ ہوجائے عدت باقی ہے ۔ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہواور کوئی عذر بھی نہ ہو تو عدت کے ایام شوہر کے گھر میں رہ کر پورے کرنالازم ہے ،
حوالہ جات
الدر عابدين (المختار وحاشية ابن رد المحتار) (3/ 299) فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 280) لو قال: أنت طالق مرارا تطلق ثلاثا إن كان مدخولا بها كذا في النهاية. اهـ. {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230] الدر المنثور في التفسير بالمأثور (1/ 677) وَأخرج عبد بن حميد عَن قَتَادَة {فَإِن طَلقهَا فَلَا تحل لَهُ من بعد حَتَّى تنْكح زوجا غَيره} قَالَ: هَذِه الثَّالِثَة الَّتِي ذكر الله عز وَجل جعل الله عُقُوبَة الثَّالِثَة لَا تحل لَهُ حَتَّى تنْكح زوجا غَيره
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب