021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر آئندہ تم نے یہ بات اشارے میں بھی کہی کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو تو تمہیں طلاق‘‘۔ کاحکم”
62169طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں: زید نے اپنی بیوی سے کہا "اور آج میں کہہ رہا ہوں کہ اگر آئندہ تم نے یہ بات اشارے میں بھی کہی کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو تو تمہیں طلاق"۔ یہ بات زید نے غصے میں اپنی بیوی کو ڈرانے کے لیے کہی تھی اور فوراً ہی اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے، لیکن زید کی بیوی نے کچھ دنوں بعد یہ بولا کہ وہ یہ شادی کر کے پچھتا رہی ہے؟ تو میرا سوال یہ ہے: 1- کیا شرط فوراً واپس لینے سے ختم ہو گئی؟ 2- کیا طلاق ہوئی؟ 3- اگر طلاق ہوئی تو طلاقِ رجعی ہوئی یا بائن؟ 4- اور کیا ہر بار بیوی کے اس بات کے بولنے سے ایک طلاق اور ہوجائے گی؟ زید اور اس کی بیوی ایک دوسرے سے بہت خوش ہیں اور دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جزاک اللہ خیراً

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) طلاق کی شرط واپس لینے سے طلاق کا مشروط ہونا ختم نہیں ہوتا۔ (2،3) ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ (4) ایک مرتبہ طلاق واقع ہونے سے اس طرح کی شرط ختم ہو جاتی ہے، لہذا آئندہ بیوی کے شادی پر پچھتانے سے دوبارہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:" (وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا)." (الدر المختار مع رد المحتار: 3/ 355) ذکر فی الفتاوى الهندية: وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك أوالإضافة إلى سبب الملك. (1/ 420) ذکر فی الفتاوى التاترخانیۃ: وإن وجد الشرط فى الملك انحلت اليمين بأن قال لامرأته:إن دخلت الدار فأنت طالق، فدخلت امرأته وقع الطلاق؛ لوجود الشرط. (5 /52 ، زكريا) قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك ... (واحدة رجعية، وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر، خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا). (الدر المختار مع رد المحتار: 3/350) قال العلامة شيخ زاده رحمه اللہ:(ففي جميعها) أي جميع الألفاظ (إذا وجد الشرط انتهت اليمين)؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة، فبوجود الفعل مرة يتم الشرط، وإذا تم وقع الحنث، فلا يتصور الحنث مرة أخرى، إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين وليس فليس ... (إلا في) كلمة (كلما فإنها تنتهي) اليمين فيها (بعد الثلاث) في الحرة والثنتين في الأمة. (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: 1 / 418، دار إحياء التراث) قال العلامۃ عبد الغنی المیدانی رحمہ اللہ: (وألفاظ الشرط: إن) بكسر الهمزة (وإذا، وإذ ما، وكل) وهذا ليس بشرط حقيقة؛ لأن ما يليها اسم، والشرط ما يتعلق به الجزاء، والأجزية تتعلق بالأفعال، لكنه ألحق بالشرط؛ لتعلق الفعل بالاسم الذي يليها، كقولك: كل امرأة أتزوجها فكذا، درر. (وكلما، ومتى، ومتى ما) ونحو ذلك، كلو، نحو: أنت كذا لو دخلت الدار (ففي كل هذه الشروط إذا وجد الشرط انحلت اليمين)؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار، فبوجود الفعل مرة يتم الشرط، ولا بقاء لليمين بدونه (إلا في كلما؛ فإن الطلاق يتكرر بتكرار الشرط)؛ لأنها تقتضي تعميم الأفعال. (اللباب: 1/446)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب