021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاقِ صریح کے بعد عدت کے اندر رجوع درست ہے
63489طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

میں نے آج سے تقریباً پانچ سال پہلے اپنی بیگم کو ایک طلاق دی تھی پھر فوراً رجوع کرلیا تھا، اب پھر دوبارہ بیگم کو مخاطب کرکے ایک طلاقِ صریح دے دی اور پندرہ، بیس دن بعد میں نے اپنے تایا سسر اور دیگر عزیزوں کو رجوع کرنے کے لیے کہا، لیکن چونکہ بیگم اپنے والدین کے گھر رہتی تھی، اس لیے انہوں نے مجھے اس کے قریب بھی نہ جانے دیا، پھر طلاق کے ٹھیک ڈھائی ماہ بعد انہوں نے مجھے وہاں بلاکر کہا کہ عدت پوری ہوگئی ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں رجوع کرنا چاہتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عدت ابھی پوری نہیں ہوئی۔ لہٰذا اب اس طرح رجوع کے لیے کہنے سے رجوع ثابت ہوگا یا نہیں؟اگر رجوع ثابت نہ ہوا تو اسی عورت کے ساتھ گھر بسانے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ کی اہلیہ کی عدت ابھی ختم نہیں ہوئی تو شرعاً آپ کو رجوع کا حق حاصل ہے، آپ کے سسر یا کسی دوسرے شخص کا آپ کو رجوع سے روکنا درست نہیں، البتہ آپ کو بھی طلاق اور دیگر گھریلو معاملات میں احتیاط اور حسنِ سلوک سے کام لینا چاہیے۔ رجوع قول اور فعل دونوں سے ہوسکتا ہے۔ قول سے رجوع کے لیے اس طرح کہنا کافی ہے کہ میں نے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلیا۔ "میں رجوع کرنا چاہتا ہوں" الفاظ سے رجوع ثابت نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ دو عادل آدمیوں کے سامنے رجوع کرکے ان کو گواہ بنادیں اور رجوع کرنے کے بعد بیوی کو بھی اس کی اطلاع کردیں۔ اگر عدت کے اندر اندر رجوع نہ کیا تو رجوع کا حق ختم ہوجائے گا، پھر اس عورت کے ساتھ رہنے کے لیے اس کی رضامندی سے دو گواہوں کے سامنے نئے مہر پر دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ واضح رہے کہ مسئولہ صورت میں چونکہ آپ دو طلاقیں دے چکے ہیں اس لیے رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کے بعد آپ کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا، لہٰذا آئندہ طلاق کے معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا، اگر اس کے بعد آپ نے ایک اور طلاق دیدی تو حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی۔
حوالہ جات
الهداية شرح البداية (2/ 6): باب الرجعة: وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى { فأمسكوهن بمعروف } من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها. والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة. الدر المختار (3/ 397): باب الرجعة: ( هي استدامة الملك القائم ) بلا عوض ما دامت ( في العدة ) أي عدة الدخول حقيقة إذ لا رجعة في عدة الخلوة ، ابن كمال . وفي البزازية ادعى الوطء بعد الدخول وأنكرت فله الرجعة لا في عكسه ، وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطأ ( بنحو ) متعلق باستدامة ( راجعتك ورددتك ومسكتك ) بلا نية لأنه صريح ( و ) بالفعل مع الكراهة ( بكل ما يوجب حرمة المصاهرة ) كمس ولو منها اختلاسا أو نائما أو مكرها أو مجنونا أو معتوها إن صدقها هو أو ورثته بعد موته ، جوهرة ……( إن لم يطلق بائنا ) فإن أبانها فلا….. ( وندب إعلامها بها ) لئلا تنكح غيره بعد العدة فإن نكحت فرق بينهما وإن دخل، شمني ( وندب الإشهاد ) بعدلين ولو بعد الرجعة بالفعل ( و ) ندب ( عدم دخوله بلا إذنها عليها ) لتتأهب وإن قصد رجعتها لكراهتها بالفعل كما مر.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب