021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے میں طلاق اور کفریہ الفاظ کہنے کا حکم
63694طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

گزارش ہےکہ  میرے بہنوئی غلام فرید  نے سعودی عرب سے گھر کے لیے پیسے بھیجے  اور بیوی سے فون پر ان پیسوں کے بارے میں پوچھاتو اس نے بتایاکہ آپ جس بیٹے کے نام پیسے بھیجے ہیں اس نے ان پیسوں میں سے ایک لاکھ خود رکھ لیا ہے اور باقی پانچ لاکھ اکاؤنٹ میں جمع کرادیا ہے ،اس پر اسے غصہ آیااور بیوی سے کہا کہ تمھارے بیٹے نے ایک لاکھ کیوں اٹھایاہے،تو مجھے برباد کرتی ہے  ، تجھے طلاق ہے ،طلاق ہے ،طلاق ہے،تو میکے چلی جا۔

چار مہینے بعد شوہر سعودیہ سے گھر واپس آیااور اپنی بیوی کے ساتھ اکٹھے رہتا رہا،چار سال بعد میری بہن کی بیٹی  پیدا ہوئی تو اس پراسے غصہ آیااور میری بہن کو  کہاکہ طلاق ہے ،طلاق ہے،طلاق ہے ،اٹھ کر چلی جا،اور ساتھ ہی دو تین چماٹیں بھی مار دیں۔میری بہن اس کے بعد اپنے ایک داماد کے گھر چلی گئی ،شام کو گھر واپس آگئی ۔

ابھی تیسری مرتبہ   چند دن  پہلے فجر کی نماز کے بعد گھر آیااور آتے ہی کہنے لگاکہ اس عورت نے مجھے برباد کیا ہے،میں نے تجھے پہلےبھی کہاکہ تو یہاں نہ بیٹھ،نکل جاؤ،تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے۔

اس کے علاوہ شادی  کے پانچ سال بعد سے  میری بہن کے شوہر نےوقتافوقتا اللہ تعالی کو گالیاں نکالنا شروع کر دی تھیں ،ایسی غلیظ گالیاں کہ ان کا تصور کرنابھی   مشکل ہے،مثلا نعوذباللہ، اللہ تعالی   غلط کام کرواتاہے،کتاہے،کتی مخلوق بنائی ہے،میں خدا اور نبی کونہیں مانتا،میرا خدا بھگوان ہے وغیر وغیرہ۔ یہ الفاظ طلاق کے واقعات سے کافی عرصہ پہلے کے ہیں، جبکہ طلاق کو ابھی دو سال کا عرصہ ہوا ہے، اس دوران بہن کی اولاد بھی ہوئی ہے۔

باقی نماز کبھی پڑھتا ہے  کبھی نہیں پڑھتا، کبھی گھر میں پڑھتا ہے ،کبھی مسجد میں جاکر پڑھتا ہے۔اس صورت حال میں کیا نکاح باقی ہے  یاختم ہوچکاہے،میری بہن کہتی ہے کہ گھریلو زندگی چلانے کے لئے ایک عرصے تک یہ باتیں میں نے کسی کو نہیں بتائیں، مگر اب آخرت کے خوف سے سب کچھ بتارہی ہوں۔مجھے شریعت کا حکم بتایاجائے۔

یہ شخص دنیا کے معاملات  میں اتناسمجھ دارہے کہ اس کے کھیت میں اگر کمزور آدمی کی بکریا ں آجائیں تو ان کومارتاہے،اور ان کے مالکوں کوجاکر گالیاں نکالتاہے اور اگر کسی طاقت ور کی آجائیں تو  صرف ان کوکھیت سے نکال دیتا ہے، نہ ان کو مارتاہے اورنہ مالکوں کو جاکر کچھ کہتا ہے۔کپڑے صاف ستھرے اور موٹر سائیکل ہنڈا نئی اپنے استعمال میں رکھتا ہے۔نیز طلاق کے وقت یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے تمہیں پہلے بھی طلاقیں دی ہیں،مگر تم نہیں گئی،اب پھر دے رہاہوں،تم چلی جاؤ۔

وضاحت از شوہر غلام فرید:

بندہ نے اس شخص کو بلایا تاکہ طلاق اور کفریہ الفاظ کے بارے میں  اس سےوضاحت طلب کی جائے ، دو مرتبہ میرے پاس آیااور اس نے ہماری مسجد میں ایک مرتبہ ظہر کی نماز بھی ادا کی ۔ بندہ نے اس کوبتایاکہ آپ کے بارے میں یہ باتیں کہی گئی ہیں، آپ کیا کہتےہیں ؟تو اس کے جواب میں اس نے کہاکہ میں بواسیر اور گیس کا مریض ہوں ، جب یہ گیس زیادہ ہوتی ہےتو میرے دماغ پر چڑھ جاتی ہے ،پھر مجھے پتہ نہیں چلتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ،اس لیے میں ان سب باتوں کے بارے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں نے نہیں کہیں ، ہوسکتا ہے کہ میں نے اس وقت کہی ہوں جب بیماری کی وجہ سے میرا دماغ صحیح کام نہیں کررہاہوتا۔مگر میں نے ہوش وحواس میں نہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں اور نہ کفریہ الفاظ کہے ہیں ۔

 اپنی بیماری کے ثبوت پر وہ نفسیاتی ڈاکٹروں کی پرچیاں بھی ساتھ لایاتھا،ایک آدھ رپورٹ بھی ساتھ لایاتھا جو سوال کے ساتھ منسلک ہے۔

دورانِ گفتگو اس نے کہا کہ میں اس بات کاقائل ہوں کہ اس کائنات میں اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا،نیز علمائے کرام بہترین  لوگ ہیں ،میں ان کی جوتیوں کی مٹی کے برابر بھی نہیں ہوں۔ یہ شخص  عمارتیں بنانے کا ماہر مستری ہے، اس کا رابطہ نمبر یہ ہے:0345-7364051۔0304-7402611

وضاحت از خاتون: اس نے ہوش وحواس میں یہ کفریہ الفاظ کہےہیں، ڈاکٹری رپورٹوں کا صرف بہانہ ہے، اس کو کچھ مسئلہ نہیں ہے، میں نے اس کے ساتھ زندگی گزاری ہے، مجھے اس کی کیفیت کا پتا ہے۔  رپورٹیں صرف اس لیے لے کر پھر رہا ہے، تاکہ میں واپس چلی جاوں،غصہ میں آکر گالیاں نکالتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، جبکہ دیگر سب کام صحیح طور پر سر انجام دیتا ہے۔ نیز کفریہ الفاظ کہنے کے بعد تجدید ایمان اور تجدید نکاح بھی نہیں ہوا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید یہ جاننا چاہیے کہ اگر کوئی شخص مدہوشی کی حالت میں طلاق وغیرہ دینے کا مدعی ہو تو ایسی صورت کے بارے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول لکھا ہے کہ اگر پہلے سے شوہر کو ذہنی مرض لاحق نہ ہو اور اس کا ذہنی مریض ہونا لوگوں میں معروف و مشہور نہ ہو، تو اس صورت میں شوہر کے دعوی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،  بلکہ دیانتاً اور قضاءً دونوں طرح شوہر کے الفاظ معتبر شمار ہوں گے اور اس کے الفاظ سے طلاق واقع ہو جائے گی  اور اگر اس کا ذہنی مریض ہونا لوگوں میں معروف و مشہور ہو تو اس صورت میں اس کی بات معتبر مانی جائے گی اور اس کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔

مذکورہ تمہید کے بعد جواب یہ ہے کہ سوال میں عورت کے نقل شدہ  بیان  کے مطابق مذکورہ شخص کی حالت بالکل درست ہے، ڈاکٹری رپورٹیں صرف بہانہ بازی ہے، اس کو کچھ مسئلہ نہیں ہے اور اس کے بقول شوہر نے کفریہ اور طلاق کے الفاظ دونوں ہوش وحواس کی حالت میں کہے ہیں،  نیز شوہر کے بیان سے بھی ان باتوں کا انکار ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس کا  کہنا یہ ہے :

 "میں ان سب باتوں کے بارے میں دعوی نہیں کرتا کہ میں نے نہیں کہیں، ہو سکتا ہے میں نے اس وقت کہیں ہوں جب بیماری کی وجہ سے میرا دماغ صحیح کام نہ کر رہا ہو، میں نے ہوش وحواس میں نہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں اور نہ ہی کفریہ الفاظ کہے ہیں"

شوہر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ وہ مدہوشی کی حالت میں یہ الفاظ کہنے کا اقرار کر رہا ہے، جبکہ سوال کے ساتھ منسلک رپورٹ ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروانے سے معلوم ہوا کہ "میڈیکل  رپورٹ بالکل درست ہے اور اس رپورٹ کا دماغی صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

لہذا صورت مسئولہ میں ہماری رائے کے مطابق شخص مذکور نے جو کفریہ الفاظ کہے ہیں وہ  عورت کے حق میں معتبر شمار ہوں گے اور کفریہ الفاط چونکہ کافی عرصہ پہلے کہے گئے ہیں، اس لیے اب حکم یہ ہے کہ اگر واقعتاً عورت  سچی ہے اور اس نے اپنے ہوش وحواس میں شوہر سے سوال میں ذکر کردہ کفریہ الفاظ سنے ہیں اور اس کے گمان کے مطابق شوہرہوش وحواس کی حالت میں تھا تو اس صورت میں یہ الفاظ سننے کے بعد بغیر تجدید ایمان اور بغیر تجدید نکاح کے عورت کے لیے ایسے شخص کے پاس ٹھہرنا ہرگز جائز  نہیں تھا،  کیونکہ سوال میں ذکرکیے گئے  الفاظ  ضروریات دین (جن کا جاننا اور ان کا عقیدہ رکھنا ہر مسلمان  پر لازم ہے، جن میں اللہ تعالی کی ذات کی نعوذ باللہ توہین اور اس کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے بچنا بھی  شامل ہیں) کے خلاف  ہیں  اور ان کے ارتکاب سے آدمی   دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے  اور شوہر کے دائرہ اسلام سے نکلنے کی بناء پر میاں بیوی  کے درمیان فوراً نکاح ختم ہو جاتا ہے اور بیوی شوہر پرحرام ہو جاتی ہے (اگرچہ  مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر مرتد ہونے کا حکم نہیں لگے گا، کیونکہ وہ ہوش وحواس میں یہ الفاظ کہنے کا منکر ہے، لیکن عورت اپنے کانوں سے سنے ہوئے الفاظ پر عمل کرنے کی شرعاً پابند ہے)۔

 لہذا اگر شوہر نے تین طلاقیں دینے تک تجدید ایمان کے بعد تجدید نکاح نہیں کیا تھا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو  اس صورت میں مذکورہ عورت پر تین طلاقیں واقع نہیں ہوئیں، کیونکہ شوہر کے کفریہ الفاظ کہنے سے بیوی اس کے نکاح سے نکل چکی تھی اور عورت کی عدت شروع ہو چکی تھی  اور سوال میں تصریح کے مطابق تین طلاقیں کفریہ الفاظ کہنے کے  کافی عرصہ گزرنے کے بعد دی گئی ہیں اور اس عرصہ کے دوران ان کی اولاد بھی ہوئی ہے، اس لیے یقینی طور پر عورت کی عدت ختم ہو چکی تھی، (اگرچہ ایسی صورت میں عدت کے دوران صحبت کرنے سے عدت نئے سرے سے شروع ہوتی ہے، لیکن اگر بار بار صحبت کی گئی ہو تو یہ عدتیں آپس میں متداخل ہو جاتی ہیں  اور بچے کی پیدائش کے ساتھ سب عدتیں ختم ہو جاتی ہیں) لہذا  اب صرف  احتیاطاً تجدید ایمان اور پھر اس کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کی ضرورت ہوگی، نیز اتنا عرصہ  غیر شرعی طور پر اکٹھے رہے، اس پر  اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا بھی لازم ہو گا۔

نوٹ: واضح رہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب دینے کا پابند ہوتا ہے، لہذا فریقین میں سے اگر کسی نے غلط بیانی سے کام لیا ہو تو اس  کا گناہ اسی پر ہو گا، مفتی پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 178):
قال - رحمه الله - (وارتداد أحدهما فسخ في الحال) وهذا قول أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد إن كانت الردة من المرأة فكذلك وإن كانت من الزوج فهي فرقة بطلاق هو مر على أصله في الإباء۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 230):
(قوله: وارتداد أحدهما فسخ في الحال) يعني فلا يتوقف على مضي ثلاثة قروء في المدخول بها ولا على قضاء القاضي لأن وجود المنافي يوجبه كالمحرمية۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 156):
 لو كانت حائلا في عدة الطلاق أو الموت فوطئت بشبهة فحبلت فظاهر ما في المعراج التداخل فتنقضي بوضع الحمل؛ لأن الحامل لا تحيض عندنا فينبغي أن يكتفى بوضع الحمل وقد قدمنا في بيان عدة امرأة الصغير معزيا إلى المجتبى فارجع إليه، وفي كافي الحاكم لو تزوجت المعتدة برجل ودخل بها وفرق بينهما فإن كانت حاملا فوضعت انقضت العدتان منهما جميعا۔
تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 272) (کتاب الطلاق):
( سئل ) في رجل حصل له دهش زال به عقله وصار لا شعور له لأمر عرض له من ذهاب ماله وقتل ابن خاله فقال في هذه الحالة يا رب أنت تشهد على أني طلقت فلانة بنت
فلان يعني زوجته المخصوصة بالثلاث على أربع مذاهب المسلمين كلما حلت تحرم فهل لايقع طلاقه ؟ (الجواب) : الدهش هو ذهاب العقل من ذهل أو وله وقد صرح في التنوير والتتارخانية وغيرهما بعدم وقوع طلاق المدهوش فعلى هذا حيث حصل للرجل دهش زال به عقله وصار لا شعور له لا يقع طلاقه والقول قوله بيمينه إن عرف منه الدهش وإن لم يعرف منه لا يقبل قوله قضاء إلا ببينة كما صرح بذلك علماء الحنفية رحمهم الله تعالی۔
وفی حاشية ابن عابدين (3/ 243):
 قوله ( والمجنون ) قال في التلويح الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب بأن لا تظهر آثارها وتتعطل أفعالها إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا اه وفي البحر عن الخانية رجل عرف أنه كان مجنونا فقالت له امرأته طلقتني البارحة فقال أصابني الجنون ولا يعرف ذلك إلا بقوله كان القول قوله اه قوله ۔۔۔۔۔۔۔۔قوله ( من العته۔۔۔وهو اختلال في العقل ) هذا ذكره في البحر تعريفا للجنون وقال ويدخل فيه المعتوه وأحسن الأقوال في الفرق بينهما أن المعتوه هو القليل الفهم المختلط الكلام الفاسد التدبير لكن لا يضرب ولا يشتم بخلاف المجنون اه وصرح الأصوليون بأن حكمه كالصبي إلا أن الدبوسي قال تجب عليه العبادات احتياطا ورده صدر الإسلام بأن العته نوع جنون فيمنع وجوب أداء الحقوق جميعا كما بسطه في شرح التحرير۔۔۔ قوله ( وفي القاموس دهش ) أي بالكسر كفرح ثم إن اقتصاره على ذكر التحير غير صحيح فإنه في القاموس قال بعده أو ذهب عقله حياء أو خوفا اه وهذا هو المراد هنا ولذا جعله في البحر داخلا في المجنون۔
مزید حوالہ جات
  إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 79):
وفي "الكليات": ولزوم الكفر المعلوم كفر، لأن اللزوم إذا كان بيناً فهو في حكم الالتزام لا اللزوم مع عدم العلم به اهـ.
قلت: وليس في عبارة "المواقف" التقييد بأن يعلم أن اللازم كفر، إنما فيه أن يعلم اللزوم فقط. لأن الكفر هو جحد الضروريات من الدين أو تأويلها۔
أيضاً: على أنه يرد عليهم أن الاستحلال بالتأويل قد يكون أشد من التعمد مع الاعتراف بالتحريم، وذلك حيث يكون المستحل بالتأويل معلوم التحريم بالضرورة، كترك الصلاة، فإن من تركها متأولاً كفرناه بالإجماع، وإن كان عامداً معترفاً، ففيه الخلاف، فكان التأويل ههنا أشد تحريماً.
أيضاً: وتارةً لما لا يمكن تأويله إلا بتعسف شابه تأويل القرامطة، وربما استلزم بعض التأويل مخالفة الضرورة الدينية، وهم لا يعلمون ولا يؤمن الكفر في هذا المقام في معلوم الله تعالى، وأحكام الآخرة وإن لم نعلمه نحن.
إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 129):
 ومن قال أن الجهل بكون الكلمة كفراً عذر، أراد في غير الضروريات، كما قد نبهنا عليه في الأمر الثالث من عبارات "فتح الباري"، ومر عن "الأشباه والنظائر"، و"حاشيته"، وبعد هذا فقد قال في "الخلاصة": ومنها أنه من أتى بفلظة الكفر، وهو لم يعلم أنها كفر، إلا أنه أتى بها عن اختيار، يكفر عند عامة العلماء خلافاً للبعض، ولا يعذر بالجهل إلخ.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 324):
وفي المحيط من أتى بلفظة الكفر مع علمه أنها كفر إن كان عن اعتقاد لا شك أنه يكفر، وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر ولكن أتى بها عن اختيار فقد كفر عند عامة العلماء ولا يعذر بالجهل، وإن لم يكن قاصدا في ذلك بأن أراد أن يتلفظ بشيء آخر فجرى على لسانه لفظة الكفر نحو أنه أراد أن يقول " بحق آنكه تواخدى وما بند كان تو " فجرى على لسانه عكسه فلا يكفر وفي الأجناس عن محمد نصا أن من أراد أن يقول أكلت فقال كفرت أنه لا يكفر، قالوا هذا محمول على ما بينه وبين الله تعالى، فأما القاضي فلا يصدقه۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 688):
وفي البحر والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده ومن تكلم بها خطأ أو مكرها لا يكفر عند الكل ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف والذي تحرر أنه لا يفتى بتكفير مسلم مهما أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا
فأكثر ألفاظ الكفر المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي منها انتهى لكن في الدرر وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر ولكن أتى بها عن اختيار فقد كفر عند عامة العلماء ولا يعذر بالجهل وإن لم يقصد في ذلك بأن أراد أن يتلفظ بلفظ آخر فجرى على لسانه لفظ الكفر فلا يكفر لكن القاضي لا يصدقه.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 134):
وأما شرائط صحتها فأنواع، منها العقل، فلا تصح ردة المجنون والصبي الذي لا يعقل؛ لأن العقل من شرائط الأهلية خصوصا في الاعتقادات، ولو كان الرجل ممن يجن ويفيق فإن ارتد في حال جنونه
لم يصح، وإن ارتد في حال إفاقته صحت؛ لوجود دليل الرجوع في إحدى الحالتين دون الأخرى، وكذلك السكران الذاهب العقل لا تصح ردته استحسانا، والقياس أن تصح في حق الأحكام.
(وجه) القياس أن الأحكام مبنية على الإقرار بظاهر اللسان لا على ما في القلب، إذ هو أمر باطن لا يوقف عليه.
(وجه) الاستحسان أن أحكام الكفر مبنية على الكفر، كما أن أحكام الإيمان مبنية على الإيمان، والإيمان والكفر يرجعان إلى التصديق والتكذيب، وإنما الإقرار دليل عليهما، وإقرار السكران الذاهب العقل لا يصلح دلالة على التكذيب، فلا يصح إقراره.
المبسوط للسرخسي (10/ 123):
وإذا ارتد السكران في القياس تبين منه امرأته؛ لأن السكران كالصاحي في اعتبار أقواله، وأفعاله حتى لو طلق امرأته بانت منه، ولو باع أو أقر بشيء كان صحيحا منه، ولكنه استحسن، وقال لا تبين منه امرأته؛ لأن الردة تنبني على الاعتقاد، ونحن نعلم أن السكران غير معتقد لما يقول، ولأنه لا ينجو سكران من التكلم بكلمة الكفر في حال سكره عادة، والأصل فيه ما روي «أن واحدا من كبار الصحابة - رضي الله عنهم - سكر حين كان الشرب حلالا، وقال لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - هل أنتم إلا عبيدي وعبيد آبائي ولم يجعل ذلك منه كفرا»
 الاختيار لتعليل المختار (3/ 114):
 وإذا ارتد أحد الزوجين وقعت الفرقة بغير طلاق (م) ، ثم إن كان المرتد الزوجة بعد الدخول فلها المهر، وقبله لا شيء لها ولا نفقة. وإن كان الزوج فالكل بعده والنصف قبله. وإن ارتدا معا، ثم أسلما معا - فهما على نكاحهما.
بداية المبتدي (ص: 66):
وإذا ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة بغير طلاق ثم إن كان الزوج هو المرتد فلها كل المهر إن دخل بها ونصف المهر إن لم يدخل بها وإن كانت هي المرتدة فلها كل المهر إن دخل بها وإن لم يدخل بها فلا مهر لها ولا نفقة وإذا ارتدا معا ثم أسلما معا فهما على نكاحهما۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 215):
 وإذا ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة بغير طلاق " وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله وقال محمد رحمه الله إن كانت الردة من الزوج فهي فرقة بطلاق هو يعتبره بالإباء والجامع ما بيناه وأبو يوسف رحمه الله مر على ما أصلنا له في الإباء وأبو حنيفة رحمه الله فرق بينهما ووجه الفرق أن الردة منافية للنكاح لكونها منافية للعصمة والطلاق رافع فتعذر أن تجعل طلاقا۔

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

16/ذیقعدہ 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب