021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض کی رقم سے خریدی گئی زمین میں قرض دینے والے کا کوئی حق نہیں
63705خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سوال زاہد کے جانور بکر کے پاس تھے،جنہیں بکر نے فروخت کردیا اور ان کے ذریعے حاصل ہونے والی دس لاکھ کی رقم زاہد کو یہ کہہ کر نہیں دی کہ بعد میں دے دوں گا،پھر بکر نے اسی دوران نو لاکھ کی زمین خرید لی جو ایک سو ساٹھ مرلے یعنی دو ایکڑ تھی۔ پانچ سال بعد بکر نے نقشہ بناکر دوکانوں کا اس زمین کو فروخت کرنا شروع کردیا اور تین دکانوں کی جگہ جو تین مرلے کی ہے زاہد کو دے دی یہ کہہ کر آپ کی رقم ادا ہوگئی،بلکہ ایک لاکھ روپے زاہد بکر کو دے گا۔ زاہد کہتا ہے کہ پانچ سال پہلے یہ زمین میری رقم سے خریدی تھی،لہذا یہ ساری زمین جو دو ایکڑ ہے میری ہے،جس سے زمین خریدی تھی وہ بھی تصدیق کرتا ہے کہ یہ زمین کی رقم مجھے زاہد کے جانور فروخت ہونے کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ اب بکر صرف تین مرلہ زمین دے رہا ہے،دو ایکڑ میں سے یعنی ایک سو ساٹھ مرلوں میں سے،جبکہ بکر کے پاس زمین خریدنے کے لئےاپنی رقم نہیں تھی اور پانچ سال کے دوران زاہد کو رقم ادا نہیں کرسکا،برائے مہربانی شریعت کے مطابق اس مسئلے کو حل فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ ان جانوروں کو فروخت کر کے حاصل ہونے والی قیمت بکر کے پاس قرض کے حکم میں تھی،جس کی بعد میں ادائیگی کا اس نے زاہد سے وعدہ کیا تھا اور یہ زمین اس نے اپنے لیے خریدی تھی،زاہد کے لیے نہیں،اس لیے یہ اسی کی ملکیت ہےاور اب زاہد کوبکرسے صرف اپنے قرض کی رقم جو دس لاکھ ہے کے مطالبے کا حق حاصل ہے،پوری زمین کے مطالبے کا حق حاصل نہیں۔ البتہ اگر زاہد اپنی دس لاکھ کی رقم کے بدلے بکر کی طرف سے دی جانے والی دکانوں پر راضی نہیں ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ بکر سے دس لاکھ نقد کا مطالبہ کرے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 162): "و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف وجعله في البزازية وغيرها قول الإمام وعند الثاني عليه قيمتها يوم القبض وعند الثالث قيمتها في آخر يوم رواجها وعليه الفتوى". "رد المحتار" (5/ 162): "وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها، وكذلك كل ما يكال ويوزن فالقرض فيه جائز، وكذلك ما يعد من البيض والجوز اهـ وفي الفتاوى الهندية: استقرض حنطة فأعطى مثلها بعدما تغير سعرها يجبر المقرض على القبول".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب