021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغہ لڑکی کی اجازت کے بغیر ماں نے نکاح کرایا
61794 نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

میری ماں نے میری اجازت کے بغیر زبردستی میرا نکاح کرواناچاہا ، جس آدمی نکاح کروانا چاہا وہ اخلاقی طور پر مجھے پسند نہیں تھا ،اس لئے میں نے نکاح کو تین رشتہ داروں کی رضا پر معلق کردیا ، ایک حقیقی چچا ،ایک حقیقی ماموں ، ایک دور کا رشتہ دار ، چونکہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکاتھا ، تو میری والدہ نے میرے ماموں کی موجودگی میں نکاح پڑھوایا ،لیکن ماموں کو یہ نہیں بتایا ،کہ نکاح تمہاری رضا ء پر معلق ہے ، باقی دو کو تو بلکل بتایا تک نہیں ، اور ساتھ میں نے ایک اور شرط رکھی تھی کہ میں درس نظامی مکمل کرنے کے بعد نکاح کرونگی ، اس طرح میری ماں نے میرا نکاح اپنی مرضی سے کروایا ، حالانکہ میں ایک مسلمان عاقلہ بالغہ ،آزاد ،لڑکی ہوں ، اس کے نکاح کے بعد میری ماں میری رخصتی پر مجھے مجبور کر رہی تھی ،اور اس معاملے میں گھر والوں نے مجھے جسمانی اور روحانی تکلیفیں دے رہے تھے ،یہاں تک بات اس حد تک پہنچی کہ مجھے گھر سے نکالدیا ،کچھ مدت گذرنے کے بعد اس بندے نے دوسرا نکاح کیا ۔ اب سوال یہ ہےکہ میری ماں کاکرایا ہوا نکاح منعقد ہوا ہے یا نہیں ؟ میرے لئے دوسری جگہ نکاح کی اجازت ہے یانہیں؟یامجھے کیا کرنا پڑے گا ،؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا آزاد بالغہ لڑکی کو نکاح پر مجبور نہیں کیاجاسکتا ہے ، اگر کوئی اس کی رضامندی کے بغیر نکاح کروادیے تو وہ نکاح لڑکی کی اجازت پر موقوف ہوتاہے ، لہذاصورت مسئولہ میں ماں کے نکاح کروانے کے بعد اگر لڑکی نےاس نکاح پر قولایاعملا رضامندی کا اظہار نہیں کیا بلکہ نکاح سے پہلے بھی انکار کرتی رہی اور نکاح کے بعد بھی تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، لڑکی کواختیار ہے کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ، نیزلڑکی کے ذمہ لازم ہے کہ والدہ سے معافی مانگ کر ان کی رضامندی سے کسی سے نکاح کرے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 58) (ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ(فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) (قوله ولا تجبر البالغة) ولا الحر البالغ والمكاتب والمكاتبة ولو صغيرين ح عن القهستاني (قوله البكر) أطلقها فشمل ما إذا كانت تزوجت قبل ذلك، وطلقت قبل زوال البكارة فتزوج كما تزوج الأبكار نص عليه في الأصل بحر (قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح فلان يخطبك أو يذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها بحر عن المحيط. الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 191) ولا يجوز للولي إجبار البكر البالغة على النكاح "
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب