021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری عہدے کا ناجائز استعمال کرکے جائیداد حاصل کرنا
62029غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

محترم مفتی صاحب! السلام علیکم۔ "ز" کے 9 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ "ز" کے بڑے بیٹے "ش" نے اپنے سرکاری عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جائیداد بنائی اور اس کو ضبط سے بچانے کے لیے اپنے والد "ز" کے نام رجسٹر کروادیا۔ "ز" کی زندگی میں ہی "ش" کا انتقال ہوگیا۔جب تک "ش" زندہ رہا، وہ اس جائیداد سے ( جوکہ "ز" کے نام تھی) حاصل ہونے والی تمام آمدنی خود لے رہا تھا۔"ش" کے انتقال کے بعد "ز" کے دیگرتمام بیٹے اور بیٹی اس آمدنی کو آپس میں تقسیم کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ: 1- کیا یہ جائیداد، جو کہ "ز" کے نام تھی، "ز" کے تمام بیٹوں اور بیٹی میں تقسیم ہوگی یا صرف "ش" کے اہل و عیال ( 2 بیٹے ایک بیٹی، جبکہ "ش" کی بیوی کا انتقال اس کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا) میں تقسیم ہوگی؟ نیز شرحِ تقسیم بھی بیان فرما دیں۔ 2- اب جب کہ "ش" کے والدین ("ز" اور اس کی بیوی) کا بھی انتقال ہوچکا ہے: الف- کیا یہ جائیداد "ز" کے بچوں کی کہلائے گی یا "ش" کے بچوں کی؟ ب- کیا یہ جائیداد حلال ہے یا حرام؟ حلال ہے تو کس کے لیےاور حرام ہے تو کس کے لیے؟ ج- اس جائیداد کا کچھ حصہ کرائے پر دیا ہوا ہےاور کچھ "ز" کے بچے چلا رہے ہیں۔ جو حصہ "ز" کے بچوں کے زیرِ تصرف ہے اس پر ہونے والے کاروبار میں "ز" کے بیٹے ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی وغیرہ سے بھی کام لیتے ہیں۔ کیا اس جائیداد سے آمدنی لینا حرام ہے یا حلال؟ حلال ہے تو کون سا حصہ اور کس کے لیے اور حرام ہے تو کون سا حصہ اور کس کے لیے؟ یا مطلقاً؟ د- نیز اب تک جو حصہ اس جائیداد سے "ز" کے بچوں نے لیا ہے، کیا وہ لینا ان کے لیے حلال تھا یا حرام؟ اور اگر حرام تھا تو اب ان کے لیے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے: حرام مال ملکیت میں داخل نہیں ہوتا۔ اس کا حکم یہ ہوتا ہے کہ یہ اصل مالک کو لوٹائی جائے، اور اگر کسی وجہ سے مالک کو لوٹانا ممکن نہ رہے تو اُس کی طرف سے بغیر نیتِ ثواب صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ البتہ اگر چیز تو حرام نہ ہو لیکن اس کے حاصل کرنے کا طریقہ درست نہ ہوتو اس پر ملکیت تو آجاتی ہےلیکن ایسا کرنا ناجائز ہوتا ہے۔ نیز محض کاغذی کارروائی میں کسی کا نام درج کروانے سے اس کی ملکیت نہیں آتی جبکہ مقصد بھی اُس کو دینے کا نہ ہو۔ اس اصول کی روشنی میں اگر "ش" نے یہ جائیداد اس طور پر حاصل کی کہ کسی اور کی ملکیت کو اپنے نام سے رجسٹر کروا لیا، یا رشوت میں کسی سے یہ جائیداد وصول کی ہو، تو ایسی صورت میں یہ جائیداد"ش" کی ملکیت میں نہیں آئے گی اور اس کے لیے اس جائیداد سے نفع اٹھانا ناجائز ہوگا۔ اور اس کو اس کے اصل مالک کو لوٹانا لازم ہوگا اور اگر کسی وجہ سے مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو مالک کی طرف سے بغیر نیتِ ثواب صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ اس صورت میں اس جائیداد میں میراث بھی جاری نہیں ہوگی، بلکہ پوری جائیداد بلا نیتِ ثواب صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ لیکن اگر اس نے جائیداد اس طور پر حاصل کی کہ اس کی وصولی کے لیے رشوت ادا کی ہو، باقی جائیداد کی پوری قیمت بھی ادا کی ہو، تو اگرچہ یہ طریقہ تو ناجائز ہے اور اس کا گناہ ہوگالیکن اس جائیداد پر "ش" کی ملکیت آجائے گی۔ اور اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
حوالہ جات
وانہ حرام للغاصب الانتفاع بہ، او التصرف فیہ، فیجب علیہ ان یردہ الی مالکہ، او الی ورثتہ بعد وفاتہ،وان لم یمکن ذلک لعدم معرفة المالک او وارثہ، او لتعذر الرد علیہ لسبب من الاسباب،وجب علیہ التخلص منہ بتصدقہ عنہ من غیر ثواب الصدقہ لنفسہ۔ (فقہ البیوع: 1003/2) …وإن اشترى إنسان منه ذلك جاز الشراء وإن كان مسيئاً لأنه ملك نفسه فإن فساد السبب شرعاً لا يمنع ثبوت الملك بعد تمامه والنهي عن هذا الشراء ليس لمعنى في عينه . (شرح السير الكبير:4/ 3)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب