021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نہ بکنے والا سامان بائع کو واپس کرنا
63851 خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کاروبار کے لیے دونوں فریقین متفقہ طور پر یہ فیصلہ کریں جس میں دونوں راضی بھی ہوں کہ فریقِ اول فریقِ ثانی سے جو سامان خریدے گا، اگر وہ سامان فروخت ہوجائے تو ٹھیک، نہیں تو فریقِ اول فریقِ ثانی کو وہ سامان واپس کردے گا۔ مثلاً فریقِ اول نے 14 /اگست کے لیے سامان خریدا۔ اب اس میں سے جو سامان 14/اگست تک فروخت نہ ہو تو وہ سامان فریقِ اول فریقِ ثانی کو واپس کردے گا۔ اور یہ بات پہلے سے طے ہو اور فریقین کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہ ہو۔ یا کاروبار کے لیے سامان لیا، کاروبار نہ چلا تو سامان واپس کردیا۔ پہلے سے ہی طے تھا کہ کاروبار نہ چلا تو واپس کیا جائے گا، فریقین متفق بھی تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر نسوار فروش ایسا کرتے ہیں کہ جو نسوار دکان پہ بچ جاتی ہے اس کو واپس لے جاتے ہیں۔ فریقِ اول: جو سامان خرید رہا ہے۔ فریقِ ثانی: جس سے سامان خریدا جا رہا ہے۔ برائے مہربانی اس کی شرعی حیثیت کیا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو کس درجہ میں؟ بدرجہ حرام یا مکروہ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خرید و فروخت کے معاملے میں ایسی شرط جو تقاضۂ عقد کے خلاف ہو، یا اس میں فریقین میں سے کسی کا نفع ہو اس سے عقد ناجائز ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ معاملے میں بقیہ مال کی واپسی کی شرط سے معاملہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی تصحیح کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین عقد میں بقیہ مال کی واپسی کی شرط نہ لگائیں بلکہ عقد کرنے کے بعد الگ سے وعدہ کرلیں، اور یہ بائع کی طرف سے احسان ہوگا، اس کو پورا کرنا بائع پر دیانۃً لازم ہوگا۔ اس کے علاوہ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ معاملہ وکالت کی بنیاد پر کیا جائے، یعنی فریقِ اول فریقِ ثانی سے سامان خریدے نہیں، بلکہ اس کی طرف سے وکیل بن کر سامان کو آگے فروخت کرے۔ جتنا سامان بک جائے اس پر فی یونٹ کے حساب سے فریقِ ثانی سے کمیشن وصول کرلے۔ اس عرصے میں اگر وہ سامان خراب یا ضائع ہوجائے تو یہ نقصان فریقِ ثانی کا سمجھا جائے گا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84) (قوله ولا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط «لنهيه - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط»۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 515) باب الوكالة بالبيع والشراء الأصل أنها إن عمت أو علمت أو جهلت جهالة يسيرة وهي جهالة النوع المحض كفرس صحت۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب