021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خدمت کی وجہ سےبعض جائیداد صرف بیٹوں کے نام کردینابیٹیوں کومحروم کردینا
66607ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص نے اپنی ذاتی محنت سے چار ایکڑ رقبہ خریدا اور اپنی زندگی میں ہی چار بیٹوں میں برابر تقسیم کردیا اور چھے بیٹیوں کو رقبے میں سے کچھ بھی نہیں دیا۔ صرف بیٹوں کو رقبہ دینے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بیٹے ان کے ساتھ کاشتکاری اور دوسرے گھر کے کاموں میں معاونت کرتے رہتےہیں ۔ اس رقبے کا باقاعدہ قانونی انتقال بھی بیٹوں کے نام کرادیا گیا ہے۔ اب بیٹوں نے قرعہ کے ذریعہ اپنے مابین چار ایکڑ رقبہ نامزد بھی کرلیا ہے۔ بیٹوں کے نام قرعہ اندازی سب والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور والد صاحب ابھی تک حیات ہیں۔ 1. اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس شخص کا بیٹیوں کو رقبہ میں سے حصہ نہ دینا اور صرف بیٹوں کے نام کرنا جائز ہے یا نہیں، اور مذکورہ صورت حال میں والد عند اللہ مجرم تو نہیں؟ 2. دوسری بات یہ معلوم کرنی ہے کہ والد کا اپنی رضامندی سے بیٹوں کےنام رقبہ منتقل کردینا بیٹوں کی ملکیت ثابت ہونے کے لیے کافی ہے؟ کیونکہ ابھی تک زمین پر قبضہ والد صاحب کا ہے اور والد صاحب نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ زمین آپ سب بیٹوں کی ہے۔ صرف اپنی زندگی میں میں کاشت کروں گا۔ اس صورت حال مین کیا بیٹے اس رقبہ کے مالک بن گئے؟ تنقیح بذریعہ فون: 1. بیٹوں نے یہ تقسیم والد کی موجودگی میں بذریعہ قرعہ کی تھی۔ 2. والد کے پاس 8 سے 10 ایکڑ زمین مزید بھی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. بیٹوں کی خدمت کے عوض والد اگر انہیں کچھ جائیداد دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس صور ت میں چونکہ والد کی دیگر جائیدادبھی ہے لہذا بیٹیوں کو محروم کرنے کا گناہ نہ ہوگا۔ 2. پھر بیٹوں کے نام ہونے کے بعد انہوں نے والد کی اجازت سے زمین آپس میں تقسیم تو کرلی ،لیکن ھبہ (عطیہ) مکمل ہونے کے لیے شرعا یہ ضروری ہے کہ جن جن کوزمین دی گئی ہے اس زمین پر انہیں قبضہ بھی دیا گیا ہو، جو کہ مذکورہ سوال میں نہیں کیا گیا، بلکہ زمین بدستور والد کے قبضے میں ہی رہی۔ لہذا والد کا یہ ھبہ مکمل نہیں ہوا۔ ھبہ مکمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ والد تمام بیٹوں کے سامنے اس زمین کو تقسیم کرکے ہر بیٹے کا حصہ اس کے قبضے میں دے دے ۔پھر بیٹے اپنی خوشی سے والد کواپنی زمین عاریتاً کاشتکاری کےلیے دے دیں اور والد بیٹوں کی زمین پر ان کی اجازت سے کاشت کرتے رہیں۔ والد کی جانب سے بیٹوں کو قبضہ اگر کچھ وقت کےلیے بھی دے دیا جائے، تویہ شرط پوری ہوجائے گی اور ھبہ مکمل ہوجائے گا۔ والله أعلم بالصواب احمد افنان 14 ذی القعدہ 1440ھ
حوالہ جات
• الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 691) ( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ... ولو وهب دارا دون ما فيها من متاعه لم يجز ،( في محوز ) مفرغ ( مقسوم ومشاع لا ) يبقى منتفعا به بعد أن ( يقسم ) كبيت وحمام صغيرين لأنها ( لا ) تتم بالقبض ( فيما يقسم ...كأن وهبه دارا والأب ساكنها أو له فيها متاع لأنها مشغولة بمتاع القابض. ... ( ولو سلمه شائعا لا يملكه فلا ينفذ تصرفه فيه ) فيضمنه وينفذ تصرف الواهب درر . ( قوله : ولو سلمه شائعا إلخ ) قال في الفتاوى الخيرية : ولا تفيد الملك في ظاهر الرواية ... • المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 10 / ص 162) وإن الواهب (أمر) الموهوب له بقبضها فقبض جازت الهبة لما ذكرنا أن العبرة لحالة القبض، وصار من حيث المعنى كأنه قال: اقبضها، ثم أمسكها لنفسك هبة. • الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696) وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد افنان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب