67384 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارا، بچیوں کا مدرسہ ہے،ہم نے آخری درجہ یعنی عالمیہ والی بچیوں کو پڑھانے کے لیے استاد رکھا تو کسی نے منع کیا کہ مرد اساتذہ نہ رکھیں ،اب سوال یہ ہےکہ استاد کا بچیوں کو پردے کے پیچھےسے پڑھاناشرعا جائز ہے یا نہیں؟مہربانی فرما کر تسلی بخش جواب عنایت فرمادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بنات کے مدارس میں بہتر یہ ہے کہ تعلیم کے لیے خواتین معلمات کا انتخاب ہواور وہی بچیوں کوپڑھائیں،جہاں یہ مشکل ہواور مرد اساتذہ کو پڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہو وہاں لڑکیوں پر مکمل پردہ فرض ہے ،جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مرد اسا تذہ الگ کمرے میں بیٹھ کر اسپیکر کے ذریعہ پڑھائیں،اور اگر الگ کمرے کا انتظام نہ ہوسکتا ہوتو درمیان میں ایسا پردہ حائل ہوجس سے مکمل طور پر پردہ کی ضرورت پوری ہورہی ہو،اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کڑی نگرانی رکھی جائے،بچیوں کے لیے بلاوجہ مرد اسا تذہ سے بات چیت کرنا یا کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو، جائز نہیں، کوئی بات پوچھنے کی ضرورت پیش آئے تو زبانی پوچھنے کے بجائے پرچی لکھ کر پوچھیں۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خواتین بھی نماز میں شریک ہوتی تھیں ،انہیں ہدایت تھی کہ کبھی اگر امام کو سہو ہوجائے اور اسے متوجہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو مرد تسبیح کہہ کرمتوجہ کریں اور عورتیں تسبیح نہ کہیں ،بلکہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر مار کر متوجہ کریں ،اسی طرح عورت کےلیے اذان دینا جائز نہیں۔
یہ سب اسی لیے ہے کہ عورت کی آواز میں طبعی طور پر نرمی اور کشش پائی جاتی ہے جو فتنے کا سبب بن سکتی ہے ،اگر کبھی عورت کو مرد سے بات کرنے کی شدید ضرورت پیش آئے تو حکم ہے کہ درشت لہجے میں بات کرے ۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 406):
نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال - عليه الصلاة والسلام - «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها - عليه الصلاة والسلام - من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة۔
وفی الشامیۃ (10/136):
وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل ، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم۔
وفي الأشباه(6/368) :
الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل ،
( قوله الخلوة بالأجنبية ) أي الحرة لما علمت من الخلاف في الأمة ، وقوله : حرام قال في القنية مكروهة كراهة تحريم وعن أبي يوسف ليس بتحريم ۔۔۔أقول : وقول القنية وليس معهما محرم يفيد أنه لوكان فلا خلوة والذي تحصل من هذا أن الخلوة المحرمة تنتفي بالحائل ، وبوجود محرم أو امرأة ثقة قادرة وهل تنتفي أيضا بوجود رجل آخر أجنبي لم أره لكن في إمامة البحر عن الإسبيجابييكره أن يؤم النساء في بيت وليس معهن رجل ولا محرم ، مثل زوجته وأمته وأخته فإن كانت واحدة منهن ، فلا يكره وكذا إذا أمهن في المسجد لا يكره ا هـ وإطلاق المحرم على من ذكره تغليب بحر . والظاهر أن علة الكراهة الخلوة ، ومفاده أنها تنتفي بوجود رجل آخر ، لكنه يفيد أيضا أنها لا تنتفي بوجود امرأة أخرى فيخالف ما مر من الاكتفاء بامرأة ثقة ثم رأيت في منية المفتي ما نصه : الخلوة بالأجنبية مكروهة وإن كانت معها أخرى كراهة تحريم ا هـ ويظهر لي أن مرادهم بالمرأة الثقة أن تكون عجوزا لا يجامع مثلها مع كونها قادرة على الدفع عنها وعن المطلقة فليتأمل.
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
21/صفر1441ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |