021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریک عامل کیلئےمشترک سرمایہ کسی کو قرض یا مضاربت پر دینے کاحکم
71677شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین فریقوں :فریق اول حاجی جیلانی ،فریق دوم بادشاہ اللہ اور ان کا بھتیجا آدم خان اورفریق ثالث بلوچ نے پچاس پچاس لاکھ روپے ملاکر کل ڈیڑھ کروڑ  روپے کا (پیاز،لہسن اور آلو)  کا مشترک کاروبار شروع کیا،اورآپس کی رضامندی سے طے پایا کہ نفع نقصان میں تینوں فریق برابر کے شریک  ہونگے اور یہ بھی کہ حساب وکتاب ایک سال بعد کریں گے۔ اس کاروبار کی ابتداء یکم ستمبر ۲۰۱۸؁ سے ہوئی ،سال مکمل ہونے کے بعد بادشاہ اللہ اور آدم خان نے دونو ں فریق سے کہا کہ حساب ستمبرکے بجائے دسمبر۲۰۱۹؁ میں کرلیں گے، بہر حال دسمبر میں حساب ہوگیااور اگلے سال کے لیے بلوچ نےنفع لینے کے بعد  شرکت سے علیحدگی اختیار کی ۔

دسمبر ۲۰۱۹؁ میں بادشاہ اللہ اور انکے بھتیجے آدم خان نے حاجی جیلانی سے  بار بار اصرار کرکےکہا کہ ہم دونوں فریق یعنی حاجی جیلانی او ربادشاہ اللہ اور انکے بھتیجے آدم خان مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں ، لیکن آپ(حاجی جیلانی) مزید پچاس لاکھ روپے دیں گےاور آپ کا کل سرمایہ ایک کروڑ ہوجائےگا،اور ہم (بادشاہ اللہ اور آدم خان )مزید چار لاکھ روپے ملائیں گےیعنی ان کاکل سرمایہ چوّن لاکھ ہوجائے گا۔

حاجی جیلانی  نےمزید پچاس لاکھ روپے  کاروبار میں شرکت کے لیےدیے  اور تیس لاکھ ­­روپے بادشاہ اللہ اور آدم خان کو قرض دیے لیکن وہ بھی انہوں  نے کاروبارمیں لگادیے، دونو ں فریقوں کاکل سرمایہ ایک کروڑ چوراسی لاکھ (۱۸۴۰۰۰۰۰)ہوا،چوراسی  (۸۴)لاکھ بادشاہ اور آدم خان کےاور ایک کروڑ (۱۰,۰۰۰,۰۰۰)حاجی غلام جیلانی  کے ہوئے۔

معاہدہ اس شرط پر ہوا کہ نفع نقصان میں دونو ں فریق  برابر کے شریک ہونگے ۔اس معاہدےکی ابتداء حساب کے اعتبارسےدسمبر ۲۰۱۹  ؁سے ہوئی اور اس سال بھی کاروبار (پیاز ،لہسن اور آلو) کا  تھا ،بادشاہ اور آدم خان نے حاجی جیلانی کو یقین دہانی کرائی کہ اس کاروبارکے نفع نقصان  میں صرف ہم دو فریق ہونگے ہمارے  علاوہ کوئی اوریعنی  بلوچ وغیرہ نہیں ہوگا۔نیز بادشاہ اور آدم خان نے حاجی جیلانی سے یہ بھی کہا کہ جب کاروبار ختم کرنا ہوتو آپ جب چاہے اپنی رقم لے لو اور کوئی وقت مقرر نہیں کیا ۔اور اس سال  حاجی جیلانی نے بادشاہ اور آدم خان سے کوئی خط یعنی  تحریری معاہدہ لکھنے کا کہا لیکن انہوں نے ۲۰۲۰؁ تک کوئی تحریری معاہدہ نہیں لکھا۔پھر  حاجی جیلانی نے یہ رقم بادشاہ او ر آدم خان کو دی تھی لیکن بادشاہ  نے وہ  رقم اپنے بیٹے کو تجارت کے لیے دے دی ۔اسی طرح ایک سال مکمل ہونے کے بعد یعنی دسمبر ۲۰۲۰؁ میں جب ایک سال مکمل ہوا تو اگلے سال ۲۰۲۱؁ کےمعاہدہ کےلیے بادشاہ نے یہ شرط لگائی کہ جب کاروبار ختم کرنا ہو تویہ رقم آپ کو ایک سال بعدملے گی حالانکہ اس سے پہلے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ جب چاہو اپنی رقم لے لو ؟اب اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل چند امورکاجواب  مطلوب ہے:

  • یہ رقم حاجی جیلانی نے بادشاہ اور آدم خان کو کاروبار کے لیے دیا تھا اب بادشاہ یہ رقم اپنے بیٹے کو حاجی جیلانی کی اجازت کے بغیرقرض دے  سکتاہےیا نہیں ؟ اگرنہیں تو شرعا ایسا کرنے والے کا کیا حکم ہے ؟
  • مستفتی نے بتایا کہ یہ رقم حاجی جیلانی نے بادشاہ اللہ اور آدم خان کو دی تھی ،کاروبار کے لیے۔اس نے ہماری یہ رقم اپنے بیٹے کو بھی دی ہوئی ہے جبکہ غلام جیلانی اس سے مطمئن نہیں ہے اور نہ وہ شریک تھے۔

معاہدے کی شرائط کے مطابق آدم خان اور بادشاہ اللہ ہی شراکت دار تھے،اگر حاجی جیلانی کی رقم ان کی اجازت کےبغیر وہ اپنے بیٹے کو دیتا ہے تو اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریک عامل کے لیے ہر اس  کام کی اجازت ہوگی جو عام طور پر اس شعبہ کےتاجر،  کاروباری نقطہ نظر سے انجام دیتے ہوں مثلاً نقد وادھا رپر معاملہ کرنا وغیر ہ ، البتہ وہ  کاروبار کی رقم سے کوئی ایسا کام نہیں کرسکتاجو تاجروں کاعرف نہ ہویا کاروباری سرگرمیوں میں اس کا شمار نہ ہوتاہو،مثلاً بڑی مقدار میں کسی کو کوئی رقم قرض یا ہبہ کے طور پر دینا،مشترک کاروبار میں کسی کو شریک کرنا۔

لہذا اگر بادشاہ نے بیٹے کو یہ رقم قرض کے طور پر  دی ہےتو یہ اس کے لیے جائز نہیں ،کیونکہ یہ محض عقد تبرع

                  یعنی اس میں شرکاء کا کوئی نفع نہیں ہے، اس لیے وہ رقم اس سے واپس لی جائے ۔الا یہ کہ بادشاہ نے یہ رقم بیٹےکوبطور

مضاربت کے دی ہو،تو اس کی شرعا  گنجائش ہے۔اس صورت میں اگروہ رقم مضارب(اس کے بیٹے ) کی کوتاہی سے ضائع ہوگئی تو اس پر ضمان آئےگا۔

اگر اس نے اپنے بیٹے کو مشترک کاروبار میں شریک کیا ہے، تو اس کی بھی شرعا اجازت نہیں ہے جب تک دوسرے شرکاء ا س کوقولا یا فعلا  اجازت نہ دے۔اسی طرح اگر وہ اپنے بیٹے سے بطور معاون یا ملازم کام لے رہاہو تو یہ بھی جائز ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 72)
 وليس لأحدهما أن يهب، ولا أن يقرض على شريكه؛ لأن كل واحد منهما تبرع.(أما) الهبة فلا شك فيها.(وأما) القرض؛ فلأنه لا عوض له في الحال، فكان تبرعا في الحال، وهو لا يملك التبرع على شريكه، وسواء قال: اعمل برأيك، أو لم يقل إلا أن ينص عليه بعينه؛ لأن قوله اعمل برأيك تفويض الرأي إليه فيما هو من التجارة، وهذا ليس من التجارة۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 191)
(قوله: ولكل من شريكي العنان والمفاوضة أن يبضع ويستأجر ويودع ويضارب ويوكل) بيان لما لكل منهما أن يفعله۔۔۔ وأما المضاربة فلكونها دون الشركة فتتضمنها۔
الاختيار لتعليل المختار (3/ 17)
قال: (ولشريك العنان والمفاوض أن يوكل ويبضع ويضارب ويودع ويستأجر على العمل)  :لأن كل ذلك من أفعال التجار (وهو أمين في المال) ; لأنه قبضه من المالك بإذنه وليس له أن يشارك ; لأن الشيء لا يستتبع مثله۔

   وقاراحمد

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      22 جمادي الثاني 1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب