021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ورثہ کے لیے وصیت کا حکم
67848وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میرے ابو کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور دومکان  ہیں ، ایک کی قیمت 26 لاکھ سے 30 لاکھ ہے،  دوسرے  کی قیمت 18 لاکھ ہے ، جس کی قیمت  26 لاکھ سے 30 لاکھ روپے ہے، اس کو والد صاحب چار بیٹوں کو دے  رہا ہے، وہ کہتا ہے کہ ہماری بیماری،کھانا پینا اور کسی کے پاس آنا جانا ہوتا ہے تو یہ سب  چار بیٹے کرتے ہیں ، ہمارے مرنے کے بعد یہ ان کے نام ہےاور دوسرا مکان سب میں تقسیم ہو گا۔ کیا اس طرح کی تقسیم میراث درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں والدصرف یہ کہتا ہے   کہ" ہمارے مرنے کے بعد یہ  گھر ان چار بیٹوں  کے نام ہے " تو یہ ہدیہ یا وراثت  نہیں ہے، بلکہ اپنے چار بیٹوں ( جو  کہ شرعی وارث ہیں) کے لیے  مذکورہ گھر کی  وصیت ہے۔ اور شریعت کا حکم یہ ہے کہ وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں ہوتی، لہٰذا یہ وصیت نافذ نہیں۔ البتہ  اگر کسی وارث کی خدمت یا حاجت کی بنا پر اسے دوسروں سے زیادہ  دے رہا ہے، کسی سے ناانصافی مقصود نہ ہوتو یہ ہوسکتا ہے کہ  یہ مکان ابھی سے ان کے نام کرکے الگ الگ  تقسیم کرکے حوالے کردیا جائے تو بیٹوں کی ملکیت ہوجائےگا، پھر دوسرے ورثہ  کا اس میں حق نہ رہے گا۔

حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(وصحت[الوصية] بالأمة إلا حملها )... (ومن المسلم للذمي وبالعكس لا حربي في داره) ...(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)... (إلا بإجازة ورثته)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «لا وصية لوارث ، إلا أن يجيزها الورثة»، يعني عند وجود وارث آخر، كما يفيده آخر الحديث ، وسنحققه (وهم كبار) عقلاء، فلم تجز إجازة صغير ومجنون، وإجازة المريض كابتداء وصية، ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته (أو يكون القاتل صبيا أو مجنونا)، فتجوز بلا إجازة ؛ لأنهما ليسا أهلا للعقوبة. (الدر المختار:6/654، 655) قال العلامة الكاساني رحمه الله: ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون، جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم ؛ لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «لا وصية لوارث، إلا أن يجيزها الورثة» . (بدائع الصنائع:7/ 338) وفي الهندية:ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي، ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة، إن أجازوا جاز، وإن لم يجيزوا بطل، ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان. (الفتاوى الهندية :6/ 90)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب