69117 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
والدصاحب نے تین پلاٹ تین بیٹوں کے نام پر خریدے تھے۔دو بیٹوں نے اپنے پلاٹوں کی کی قسطیں خود ادا کردیں،جبکہ تیسرا بیٹا مدرسہ پڑھتا تھا اور وہ اپنے پلاٹ کی قسطیں ادا نہیں کرسکتا تھا۔والد صاحب نے کہا کہ چھوٹے بیٹے کے پلاٹ کی قسطیں میں ادا کر دیتا ہوں،لہذا انہوں نے قسطیں ادا کردیں،لیکن کچھ ڈویلپنگ چارجز ابھی باقی تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔گھر کے سب افراد کو معلوم تھا کہ یہ پلاٹ چھوٹے بیٹے کا ہے اور فائل بھی اسی کے نام پر ہی بنی تھی،لہذا سوسائٹی والے بقیہ قسطوں کے لئے بھی اسی سے رابطہ کرتے تھے ،لیکن سوسائٹی کی طرف سے ابھی پلاٹ کی تعیین نہیں ہوئی تھی ۔اب معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ پلاٹ والد صاحب کی میراث میں تقسیم ہوگا یا نہیں؟ورثاءمیں ایک بیوہ،تین بیٹیاں اور چھ بیٹے وارث ہیں،میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چھوٹے بیٹے کے نام پر خریدا گیا پلاٹ چونکہ ابھی تک سوسائٹی میں متعین نہیں ہوا،لہذا یہ پلاٹ چھوٹے بیٹے کا شمار نہیں ہوگا،کیونکہ والد نے اپنی زندگی میں چھوٹے بیٹے کو پلاٹ پرقبضہ نہیں کرایا تھا،اس لئے یہ پلاٹ والد کے ترکہ میں شمار ہوگا اورثاء کے درمیان شرعی لحاظ سے تقسیم ہوگا۔چنانچہ آپ کے والد نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب میت کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےمرحوم کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد مرحوم کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کی جائے۔اس کے بعد جو بچے ،اس کو کل 120 حصوں میں تقسیم کر کےمرحوم کی بیوہ کو15 حصے ،ہر بیٹی کو7 اور ہر بیٹے کو 14 حصے دیئے جائیں۔
حوالہ جات
سیدقطب الدین حیدر
دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی
14/07/1441
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید قطب الدین حیدر بن سید امین الدین پاشا | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |