021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین دفعہ سے زائد طلاق دینے کا حکم
68396طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میں دوکان پر بیٹھا ہوا تھا،والد صاحب دوکان پرتشریف لائے،میرے اور والد کے درمیان جھگڑا ہوا،ہم دونوں کے درمیان کافی بدکلامی ہوئی اور میں اٹھ کر دوکان سے باہر چلا گیا اور باہر کھڑا ہوکر بہت کچھ بولا،میں نے والد صاحب سے کہا :آپ سب کی وجہ سے میری زندگی تباہ ہوئی پڑی ہے جس میں میری بیگم بھی موجود ہے اور غصےمیں میں نے کہا:"میں اس (بیگم)کو طلاق دیتا ہوں"یا یہ کہا "اس کو میری طرف سے طلاق ہے"یہ الفاظ بےشمار دفعہ بولے،شاید دو سے زیادہ دفعہ بولے،یہ کہہ کر میں دوکان سے چلاگیا اورسارے راستے اپنے آپ سے گفتگو کرتا رہا:"اچھاہوا"اس بیگم سے جان چھوٹ گئی،اچھا ہوا میں نے یہ طلاق کے الفاظ بول دیے،کچھ دیر بعد یہ سارا معاملہ میری والدہ کو معلوم ہوا، انہوں نے مجھے کال کی اور ماں سے گفتگو کے درمیان میں نے ماں سے کہا: "میں نے اس بیگم کو نہیں رکھنا،میری طرف سے اب وہ فارغ ہے،میں اس کو طلاق دیتا ہوں" یا یہ کہا کہ" میری طرف سے اس کو طلاق ہے"یہ الفاظ بے شمار دفعہ بولے اور میں نے کال بند کردی۔

اور میں اپنے آپ سے گفتگو کرنے لگاکہ"میری طرف سے طلاق ہے،میں نے اسے اپنےساتھ نہیں رکھنا"یہ گفتگو اپنے آپ سے کئی مرتبہ کی اور یہ گفتگو کرتے کرتے میں اپنے ایک دوست کے پاس چلاگیا،یہ سارا معاملہ اپنے دوست کوبیان کیا اور دوست سے بھی بے شمار دفعہ کہاکہ"اس سے جان چھوٹ گئی،میں نے اسے طلاق دےدی اور وہ میری طرف سے فارغ ہے"اور میں دوست کے پاس بیٹھا رہا ،رات کو دیر سے گھرواپس آیا۔

اسی طرح کچھ دن گزرگئے، میرے والد صاحب نے والدہ صاحبہ سے کہا :اسے کہو :کسی قاری صاحب سے معلوم کرے جو بکواس اس نے کی ہے ،اس سے طلاق تو نہیں ہوئی۔والدہ صاحبہ نے کہا کہ اس نے معلوم کیا ہے:"طلاق واقع نہیں ہوئی"اور میں نےیہ بات ایسے ہی کسی آدمی سے پوچھی تھی،اس نے کہاتھا"ایسے طلاق نہیں ہوتی"اس طرح بات ختم ہوگئی اور دن گزرنے لگے۔

ایک دن ایسے ہی رات کو نیٹ پر طلاق کے متعلق بیان سنا"کہ عورت سنے یا نہ سنے طلاق ہو جاتی ہے"اور پھر میرے دل میں ایک ڈر سا بیٹھا اور مجھے محسوس ہوا بیان سننے کے بعد کہ میری بیوی کو طلاق ہو گئی تھی،میں نے یہ بات گھر میں کسی کو نہ بتائی اور وقت گزرتارہا اور میں اسی بات پر متفق ہوگیا کہ طلاق واقع ہو گئی ہےاور میں دوستوں سے کہنے لگا" میں دوسری شادی کرنے لگا ہوں"اور دوستوں نے پوچھا کہ پہلی بیوی کو طلاق دےدی کیا؟میں یہی جواب دیتا تھاکہ"ہاں طلاق دےدی ہے"یہ بات کافی دوستوں سےکئی بار کہی ہے،اسی طرح وقت گزرتارہا اور بیگم اپنےگھر چلی گئی اس واقعہ کو کافی عرصہ ہوچکاہے۔

اب یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ طلاق واقع ہوئی ہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالاصورت میں بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،لہذا اب یہ عورت آپ کے لیے مکمل طور پر حرام ہوچکی ہے۔ فی الحال اس سےنہ دوبارہ نکاح ہوسکتاہے اورنہ ہی رجوع،اس حالت میں میاں بیوی کا اکھٹے رہنا حرام ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه اللہ تعالي:وأما حكم طلاق البدعة فهو أنه واقع عند عامة العلماء. (ولنا) ما روي عن عبادة بن الصامت رضي اللہ عنه أن بعض آبائه طلق امرأته ألفا فذكر ذلك للنبي صلى اللہ عليه وسلم، فقال صلى اللہ عليه وسلم :بانت بالثلاث في معصية،وتسعمائةوسبعة وتسعون فيما لا يملك. وروي عن ابن عباس رضي اللہ عنهما أنه قال: إن أحدكم يركب الأحموقة فيطلق امرأته ألفا ثم يأتي فيقول: يا ابن عباس ،يا ابن عباس وإن اللہ تعالى قال: {ومن يتق اللہ يجعل له مخرجا} [الطلاق: 2] وإنك لم تتق اللہ فلا أجد لك مخرجا بانت امرأتك وعصيت ربك ،وروينا عن عمر رضي اللہ عنه : أنه كان لا يؤتى برجل قد طلق امرأته ثلاثا إلا أوجعه ضربا، وأجاز ذلك عليه ،وكانت قضاياه بمحضر من الصحابة رضي اللہ عنهم أجمعين فيكون إجماعا منهم على ذلك.(بدائع الصنائع:3/96) قال الشیخ نظام رحمہ اللہ تعالی:(وأما البدعي) فنوعان :بدعي لمعنى يعود إلى العدد، وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت. (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك ،وقع الطلاق ،وكان عاصيا. (الھندية:1/383) قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی:الطلاق على ضربين صريح ،وكناية فالصريح: قوله أنت طالق ، ومطلقة ،وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي؛ لأن هذه الألفاظ تستعمل في الطلاق ،ولا تستعمل في غيره فكان صريحا، وأنه يعقب الرجعة بالنص ،ولا يفتقر إلى النية ؛ لأنه صريح فيه لغلبة الاستعمال ، وكذا إذا نوى الإبانة ؛ لأنه قصد تنجيز ما علقه الشرع بانقضاء العدة فيرد عليه. (الھدایۃ:1/235) قال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ تعالی:(قوله وطلاق البدعة) ما خالف قسمي السنة، وذلك بإن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة، أو مفرقة في طهر واحد ،أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض ،أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا.(فتح القدير:3/468) قال العلامۃ ابن نجیم الحنفی رحمہ اللہ تعالی:قوله: (وثلاثا في طهر أو بكلمة ،بدعي) أي تطليقها ثلاثا متفرقة في طهر واحد أو ثلاثا بكلمة واحدة، بدعي أي منسوب إلى البدعة، والمراد بها هنا: المحرمة؛لأنهم صرحوا بعصيانه ،ومراده بهذا القسم ما ليس حسنا ولا أحسن، ولذا قال في فتح القدير: طلاق البدعة ما خالف قسمي السنة فدخل في كلامه ما لو طلق ثنتين بكلمة واحدة أو متفرقا أو واحدة في طهر قد جامعها فيه أو في حيض قبله.(البحر الرائق:3/257)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب