021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمررسیدہ خاتون کا تنہا سفرِ حج کرنا
69310حج کے احکام ومسائلکن لوگوں پر حج فرض ہے؟

سوال

ایک عمر رسیدہ خاتون پر حج فرض ہے، اس کا خاوند فوت ہو چکا ہے، اس کا کوئی اور محرم بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں ہے،  وہ اپنی بہن، بہنوئی، بھانجی اور ایک اورخاتون  کے ساتھ حج پرجانا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ایسی عورت کے لیے ان خواتین کے ساتھ حج پرجانا جائز ہے؟ جبکہ اس خاتون کی عمر تریسٹھ سال ہے اور اس کے ساتھ جانے والی دو خواتین کی عمر بھی پچاس سے اوپر ہے، البتہ بھانجی کی عمر  اٹھارہ سال ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حنفیہ کے اصل مذہب کے مطابق عورت کا بغیر خاوند اور محرم کے سواستتر (77.24)کلومیٹر یا اس  سے زیادہ مسافت کا تنہا سفر کرنا جائز نہیں،  خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور سفر۔ بہر صورت یہی حکم ہے، کیونکہ  شریعت میں عورت کو تنہا سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا حنفیہ کے مذہب پر ایسی عورت کو حج کے لیے تنہا سفر کرنا جائز نہیں، بلکہ اس کو محرم میسر ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے اور زندگی بھرمحرم نہ ملنے کی صورت میں حج کی وصیت کرنا واجب ہے۔

البتہ  حضراتِ مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک عورت درج ذیل شرائط کے ساتھ سفرِ حج کر سکتی ہے:

  1. محرم کے علاوہ دیگر شرائط کے اعتبار سے عورت پر حج فرض ہو چکا ہو۔
  2. اس کا خاوند یا کوئی محرم شخص اس کے ساتھ  حج پر  جانے کے لیے میسر نہ ہو۔
  3. جماعة النساء یعنی باعتماد عورتوں کی جماعت سفر میں ساتھ موجود ہو، تاکہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ مالکیہ کی اکثر کتبِ فقہ میں عورت کے بغیر محرم حج کے لیےجانے کی صورت میں خواتین کی جماعت کے ساتھ سفرکرنے کی قید لگائی گئی ہے اور ان کے نزدیک ایسی صورت میں خواتین کی جماعت کو محرم کے قائم مقام شمار کیا گیا ہے۔

نیز بعض اکابر رحمہم اللہ کے فتاوی میں بھی بوڑھی عورت کو بغیر محرم کے سفر حج کی گنجائش دی گئی ہے، چنانچہ  حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب نوّر اللہ مرقدہ عمررسیدہ خاتون کے سفرِحج سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"بعض مشائخ سے جواز کی روایتِ فقہیہ بعض معتبرات میں موجود ہے، قال الشامی من الحظر والاباحة، فصل البیع وفیہ اشارة الی أن الحرة لاتسافر ثلاثة أيام بلامحرم واختلف فيما دون الثلاثة، قيل إنها تسافر مع الصالحين والصبي والمعتوه غير محرمين كما في المحيط قهستاني۔ اور فصل حداد ميں يہ عبارت بھی قابلِ لحاظ ہے، قال في الدرالمختار ولابد من سترة بينهما في البائن لئلا يختلي بالاجنبية ويمكن أن يقال في الاجنبية كذلك وإن لم تكن معتدته إلا أن يوجد نقل بخلاف۔ بحر۔ اور بعض وقائع صدرِ اول کے مثلا: مہاجرات حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی زید بن حارثہ اور جلّ من الانصار کے ساتھ مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ تک اور اس کے بھی امثال قابلِ لحاظ ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وقائع میں ایک ضربِ اجتہاد سے کام لینا پڑتا ہے۔ قال فی الفتح من الخلع والحق أن علی المفتی أن ینظر فی خصوص الوقائع۔"

  (فتاوی دارالعلوم دیوبند:ج:6ص:328)

اسی طرح فتاوی دارالعلوم زکریا میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ سے ایسی عورت کے لیے سفرِ حج کا جواز نقل کیا گیا ہے:

 "حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ75سالہ بوڑھی عورت بااعتماد خواتین کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے یا نہیں؟ تو حضرت رحمہ اللہ نے اس کی اجازت دی اور دلیل میں یہ  عبارت نقل فرمائی:    

فی الدر المختارأما العجوز التي لا تشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا.ج:5ص:362۔                                                              (فتاوی دارالعلوم زکریا:ج:3ص:356)

نیز حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ نے ایک سوال کے جواب میں عمر رسیدہ خاتونکوتنہا سفر کرنے کی اجازت دی ہے:

"فی الدر المختارأما العجوز التي لا تشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا.ج:5ص:362، میں نے شاید درمختار کے اسی جزئیہ پر کہا ہو گا، گو اچھی طرح یاد نہیں، بہر حال گنجائش ضرورہے۔"

(امداد الفتاوی :ج:4ص:201،  مکتبہ دارالعلوم کراچی)

البتہ چونکہ سفرِحج میں صرف سفر نہیں، بلکہ حرمین شریفین میں کئی دن تک باقاعدہ قیام بھی ہوتا ہے،اس لیے صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت پر مالی استطاعت کی رُو سے حج فرض ہو چکا ہے اور واقعتاً کوئی محرم ساتھ جانے کو تیار نہیں، یا تیار تو ہے مگر اس شخصکے پاس سفری اخراجات کے لیے رقم نہ ہو اور عورت بھی اس کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہرکھتی ہو تو ایسی صورت میں فرض حج کی ادائیگی کے لیے عمررسیدہ خاتون چند صالح اور باعتمادخواتین (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) کے ساتھ  مالکیہ کے مذہب کے مطابق سفرِ حج کر سکتی ہے، بشرطیکہ پورے سفر کے دوران کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔

حوالہ جات
الكافي في فقه أهل المدينة (2/ 1134) أبو عمر يوسف بن عبد الله النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) مكتبة الرياض الحديثة، الرياض، المملكة العربية السعودية:
ولا تسافر المراة الا مع زوج أو مع ذي محرم منها إلا سفرها إلى الحج خاصة فإنها إذا لم يكن لها ذو محرم من الرجال خرجت مع جماعة النساء۔
التفريع في فقه الإمام مالك بن أنس (2/ 416) عبيد الله بن الحسين بن الحسن أبو القاسم ابن الجَلَّاب المالكي (المتوفى: 378هـ) دار الكتب العلمية، بيروت:
فصل في خلوة الرجل بغير ذات المحرم وسفر المرأة ولا يخلو الرجل بامرأة ليست منه بمحرم ولا تسافر المرأة إلاّ مع ذوي محارمها إلاّ سفر الحج وحده فإنها تسافر في جماعة النساء إذا لم يكن لها ذو محرم من الرجال.
مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (2/ 522) شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلسي المغربي، المعروف بالحطاب الرُّعيني المالكي (المتوفى: 954هـ):
 أن المرأة إذا أسلمت في بلد الحرب لزمها الخروج منها إلى بلد الإسلام وإن لم يكن معها ذو محرم خلافا لأهل العراق في قولهم: إن فرض الحج يسقط عنها بعدم المحرم.
وقول مالك أصح؛ لأنه يخصص من عموم الحديث الهجرة من بلد الحرب بالإجماع وحج الفريضة بالقياس على الإجماع انتهى، وقال التلمساني في شرح جامع الجلاب وأما سفر الحج فإنها تسافر مع جماعة النساء إذا لم يكن لها محرم قال الأبهري: لأنها لو أسلمت في دار الحرب لوجب عليها أن تخرج من غير ذي محرم إلى دار الإسلام وكذا إذا أسرت وأمكنها أن تهرب منهم يلزمها أن تخرج من غير ذي محرم فكذلك يلزمها أن تؤدي كل فرض عليها إذا لم يكن لها ذو محرم من حج أو غيره انتهى.
ونقله القرافي في شرحه أيضا وذكر ابن عرفة في الزنا على القول بتغريب المرأة إن لم يكن لها ولي تخرج في جماعة رجال ونساء كحج الفرض وإلى هذا أشار المصنف بقوله: كرفقة أمنت بفرض أي فإن لم يكن لها محرم ولا زوج فيجب عليها الخروج للحج الفرض في رفقة مأمونة، لكن ظاهر كلام المصنف يقتضي أن المطلوب في حقها وجود زوج أو محرم أو رفقة مأمونة فمن وجد من الثلاثة خرجت معه۔
المختصر الفقهي لابن عرفة (2/ 127) محمد بن محمد ابن عرفة الورغمي التونسي المالكي، أبو عبد الله (المتوفى: 803 هـ) الناشر: مؤسسة خلف أحمد الخبتور للأعمال الخيرية
[باب شروط الحج على المرأة]
والمعروف شرطه على المرأة بصحبة زوج أو محرم: الموطأ: جماعة النساء كالمحرم. اللخمي: قول ابن عبد الحكم: لا تخرج مع رطل دونه أحسن من قول مالك: تخرج مع رجال أو نساء لا بأس بهم. وروى ابن رشد: جماعة الناس كالمحرم. وفيها: من ليس لها ولي تخرج مع من تثق به من الرجال والنساء. الباجي: لا يعتبر في كبير القوافل وعامر الطرق المأمونة. الشيخ: روى ابن حبيب لها أن تخرج للفرض بلا إذن الزوج, وإن لم تجد محرمًا ولا بد في التطوع من إذنه والمحرم. وسمع القرينان لا تخرج مع ختنها دون جماعة الناس.
الحاوي الكبير للعلامة الماوردی(4/ 363) دار الكتب العلمية، بيروت:
فأما إن كان الحج تطوعا، لم يجز أن تخرج إلا مع ذي محرم، وكذلك في السفر المباح، كسفر الزيارة والتجارة، لا يجوز أن تخرج في شيء منها إلا مع ذي محرم، ومن أصحابنا من قال: يجوز أن تخرج مع نساء ثقات، كسفر الحج الواجب، وهو خلاف نص الشافعي، وقال مالك: يجوز أن تخرج من الفرض مع نساء ثقات، لكن لا يجوز أن تخرج مع امرأة واحدة، وقال أبو حنيفة: لا يجوز أن تخرج في الفرض والتطوع إلا مع ذي محرم۔
المجموع شرح المهذب (7/ 86) دار الفكر، بيروت:
 (وإن كانت امرأة لم يلزمها إلا أن تأمن على نفسها بزوج أو محرم أو نساء ثقات قال في الإملاء أو امرأة واحدة وروى الكرابيسي عنه إذا كان الطريق آمنا جاز من غير نساء وهو الصحيح لما روى عدي بن حاتم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال (حتى لتوشك الظعينة أن تخرج منها بغير جوار حتى تطوف بالكعبة قال عدي فلقد رأيت الظعينة تخرج من الحيرة حتى تطوف بالكعبة بغير جوار) ولأنها تصير مستطيعة بما ذكرناه ولا تصير مستعطيعة بغيره)
صحيح البخاري (رقم الحدیث: 3006) دار طوق النجاة:
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي معبد، عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلون رجل بامرأة، ولا تسافرن امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبت في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجة، قال: «اذهب فحج مع امرأتك»
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1743) دار الفكر، بيروت:
(وعنه) أي عن ابن عباس (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يخلون) أكد النهي مبالغة (رجل بامرأة) أي أجنبية (ولا تسافرن) أي مسيرة ثلاثة أيام بلياليها عندنا
 (امرأة) أي شابة أو عجوزة (إلا ومعها محرم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن الملك فيه دليل على عدم لزوم الحج عليها إذ لم يكن معها محرم، وبهذا قال أبو حنيفة وأحمد، وقال مالك - رحمه الله تعالى يلزمها إذا كان معها جماعة النساء، وقال الشافعي - رحمه الله - يلزمها إذا كان معها امرأة ثقة اهـ. وقال الشمني مذهب مالك إذا وجدت المرأة صحبة مأمونة لزمها الحج لأنه سفر مفروض كالهجرة، ومذهب الشافعي إذا وجدت نسوة ثقات فعليها أن تحج معهن۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

18/ رجب المرجب 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب