021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
B4Uکمپنی کے ساتھ کاروبار میں پیسہ لگانے کا حکم
69279مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک کمپنی ہے  B4Uیعنی  Busisness for you وہ لوگوں سے  انویسٹمنٹ لیتے ہیں اور  ان کی یہ رقم مختلف کاروبار مثلا: پراپرٹی،تجارت ،ریسٹورنٹ اور آئی ٹی کے کام وغیرہ میں لگاتی ہے۔ کمپنی کے اٹلی اور ملا ئیشیا وغیرہ میں بھی آفس ہیں اور پاکستان میں ایف بی آر سے بھی منظور شدہ ہے۔کمپنی لوگوں سے جو رقم  لے کر اس پر کاروبار کرتی ہے  اس  رقم کا 7 سے 20٪ پیسا لگانے والے گاہک کو دیتی ہے جبکہ  آپ کی اصل رقم بالکل محفوظ اور قابل واپسی ہے، البتہ آپ اپنی لگائی ہوئی رقم اگر 60 دن سے پہلے  واپس لیں گے تو  35 فیصد رقم ،2 سے 4 ماہ میں واپس لیں گے تو 20 فیصد رقم،4 سے 6 ماہ کے درمیان واپس لیں گے تو 10 فیصد رقم کاٹ لی جائے گی ،البتہ اگر 6ماہ کے  بعد نکلوائیں گے تو کوئی کٹوتی نہیں ہوگی۔

                             لگائی جانے والی رقم کے اعتبار سے آپ کو مختلف کیٹیگری میں رکھا جاتا ہے مثلا:700 سے 2999 ڈالر انویسٹ کرنے والے کو بلیومون پیکج کا نام دیا جاتا ہے اور 50000 یا اس سے اوپر رقم لگانے والے کو کوہ نور پیکج کا نام دیا جاتا ہے۔پھر آپ  کے تعلق سے اس کمپنی کے جو مزید گاہک بنیں گے  اس پر آپ کوپانچویں لائن تک (یعنی آپ نے براہ راست اس کمپنی میں رقم لگانے کے لیے 10 لوگوں کو تیار کیا تو یہ پہلی لائن ہے پھر ان میں سے ہر ایک جتنے لوگوں کو تیار کرے گا  وہ دوسری لائن کہلائے گی،اسی طرح پانچویں لائن تک سلسلہ  چلتا ہے)لوگوں کی لگائی ہوئی رقم  کا بھی  اور اس رقم سے کیے گئے  کاروبار پر حاصل ہونے والے نفع کا   بھی  بونس ملتا ہے۔

                             وضاحت:سائل سے کمپنی کے کاروبار اور ان کے پورے طریقہ کار سے متعلق استفسار کیا گیا تھا ،جس پر سائل نے  کہا کہ ہمارے پاس کل دستیاب معلومات یہی ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس کاروبار کی تمام تر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں  البتہ جو معلومات فراہم  کی گئی ہیں ان کے مطابق یہ عقد مضاربت (عامہ ،مطلقہ )ہے اور  یہ درج ذیل  شرائط کی بناء پر فاسد ہے:

  1. آپ کی اصل رقم بالکل  محفوظ  ہوگی۔
  2. آپ کو نفع آپ کی لگائی ہوئی رقم کا   7 سے 20 فیصد دیا جائے گا۔
  3. 6 ماہ سے پہلے رقم واپس لینے کی صورت میں  اصل سرمایہ سے کٹوتی ہوگی۔

  درج بالا تینوں  شرائط فاسد ہیں ۔لہٰذا اس کمپنی کے ساتھ کاروبار میں رقم لگانا ہرگز  جائز نہیں ۔ اگر کسی شخص نے اس کمپنی میں رقم لگائی ہے تو اس رقم سے کیے جانے والے کاروبار پر جتنا بھی نفع  ہوا  وہ مال لگانے والے شخص کو ملے گا اور کمپنی  کو اس کاروبار کرنے کی عام طور پر لوگوں کو جو اجرت ملتی ہے وہ ملے گی۔البتہ 6 ماہ سے پہلے رقم واپس لینے کی صورت میں کمپنی صرف حقیقی نقصان  کی تلافی کی صورت میں پیسے کاٹ سکتی ہے ،یعنی اگر کمپنی  کو اس رقم سے کیے گئے کاروبار پر  نقصان ہوا ہو تو اس نقصان کے بقدر رقم   کاٹ سکتی ہے وگرنہ کمپنی کے لیے رقم کی کٹوتی کرنا جائز نہیں،پوری رقم  اورگاہک کے حصے میں آنے والا  مکمل نفع واپس کرنا لازم ہے۔

چونکہ یہ معاملہ مضاربت  فاسدہ ہے لہٰذا کسی دوسرے شخص کو اس کمپنی کے ساتھ رقم لگانے کے لیے تیار کرنا بھی جائز نہیں اور اگر اس کمپنی کے ساتھ کسی کی رقم لگوائی ہے تو اس پر کمیشن لینا بھی جائز نہیں۔

نیزکمپنی نے اپنے کاروبار کی تشہیر میں دار العلوم کراچی کا ایک فتوی بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہوا ہے جو کہ اس کمپنی کےکاروبار کے جائز ہونے کی ہرگز دلیل نہیں بن سکتا۔ کمپنی نے دارالعلوم سے سوال پوچھتے ہوئے مبہم بات بیان کی ہے کہ "ہم  کاروبار پر حاصل کردہ  منافع  کا 60 فیصد  کاروبار میں پیسا لگانے والے شخص کو دیتے ہیں البتہ سمجھانے کے  لیے  گاہک کو یہ کہتے ہیں کہ  آپ کی لگائی ہوئی رقم کا  7 سے 20 فیصد پیسا آپ کو نفع کی مد میں دیں گے" دارالعلوم کراچی سے جاری شدہ فتوی میں تو اصولی بات بیان کی گئی ہے کہ اگر  کسی جائز کاروبار   پر حاصل ہونے والا نفع،  فیصد میں طے کیا جائے تو یہ جائز ہے ،لیکن مفتیان کرام کو یہ بات نہیں بتائی گئی  کہ کمپنی  کاروبار میں پیسہ لگانے والے شخص کے ساتھ  جو معاہدہ کرتی ہے،اس کے مطابق   کمپنی  آپ کی لگائی ہوئی رقم کا  7 سے 20 فیصد( نہ کہ کاروبار پر حاصل ہونے والے نفع کا )   آپ کو نفع کی مد میں دینا طے کرتی ہے،جو کہ جائز نہیں  ،لہٰذا دارالعلوم کا یہ فتوی ہرگز بھی اس کمپنی کے  کاروبار کے جائز ہونے کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا۔

          مزید یہ کہ کسی کاروبار سے متعلق تفصیلی حکم  کے لیے یہ جاننا بھی  ضروری ہے کہ  کمپنی   یا ادارہ  لوگوں سے رقوم کن شرائط پر لیتا ہے اور ان رقوم کو حقیقتا کسی کاروبار میں لگاتا ہے یا نہیں؟مزید وہ کاروبار بھی جائز ہے یا نہیں؟نیز کسی خاص کمپنی کے بارے میں جواز کا فتوی دینے کے لیے یہ  بھی ضروری ہوتا ہے کہ ان کے کاروبار کو عملا دیکھا جائے یا پوری حقیقی تفصیل معلوم ہو   اور مزید یہ کہ اگر وہ عوام کے پیسے سے کاروبار  کرتی ہے تو  کسی ماہر مفتی کی نگرانی میں  کام کر رہی ہو۔

حوالہ جات
وقال اللہ تبارک و تعالی:ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون. (سورۃ البقرۃ:188)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما، فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة.(الدر المختار:4/326)
و قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:قوله: (والربح إلخ) :حاصله أن الشركة الفاسدة ؛إما بدون مال، أو به من الجانبين، أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك، كما ذكروه في قفيز الطحان، والثالثة لرب المال، وللآخر أجر مثله.(رد المحتار علی الدر المختار:4/326)
وقال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی رحمہ اللہ:(وما هلك من مال المضاربة فمن الربح) ؛ لأنه تبع كالعفو في باب الزكاة (فإن زاد فمن رأس المال) ؛ لأن المضارب أمين فلا ضمان عليه، فإن اقتسما الربح والمضاربة بحالها ثم هلك المال أو بعضه رجع في الربح حتى يستوفى رأس المال ؛ لأن الربح فضل على رأس المال، ولا يعرف الفضل إلا بعد سلامة رأس المال ،فلا يصح قسمته فينصرف الهلاك إليه لما بينا.(الاختیار لتعلیل المختار:3/24)
قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ: قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.     (رد المحتار علی الدر المختار:6/47)
و قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ:وتفسد، إن شرط لأحدھما دراھم مسماۃ من الربح؛ لأنہ
شرط      یوجب     انقطاع   الشرکۃ  فی  بعض  الوجوہ ، فلعلہ  لا  یخرج  إلا  القدر  المسمی  لأحدھما  من
الربح.(تبیین الحقائق:4/248)
وفی الدر المنتقی مع  مجمع الأنھر:و کون الربح بینھما مشاعا، فتفسد إن شرط لأحدھما عشرۃ دراھم مثلا.(الدرالمنتقی :3/446)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب