021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حب الوطن من الایمان کی تحقیق اور جشن آزادی منانےکا حکم
69947حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

 حب الوطن من الایمان کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا ملکی آزادی کی خوشی منانا اور تقریبات منعقد کرنا شرعا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس حدیث کے الفاظ اگرچہ موضوع ہیں ،لیکن بعض بڑےاہل علم نے اس کے معنی کو صحیح  قرار دیا ہے، رہا یہ کہ اسلام میں وطنیت یعنی کسی ملک یاعلاقےسے محبت کی کیا حیثیت ہے؟ تو اس حوالے سے کچھ تفصیل یہ ہے کہ وطن کی محبت نہ توعلی الاطلاق ایسی محمود ہے کہ اسےایمان  کا لازمی تقاضہ یا ارکان وشرائط میں سے قرار دیا جائے اور نہ ہی اس طرح مطلقا ممنوع ہے کہ اس کو بہرحال ایک ناجائز اور خلاف شریعت وایمان قرار دیا جائے، بلکہ اس کے تین درجات ہیں:

۱۔ کسی بھی ملک  اور علاقےسے محض  مخصوص قومیت ،لسانیت اور عصبیت کے تناظر میں محبت اور اس کا اظہار در حقیقت وطن پرستی ہے جو یقینا شرعا مذموم ہے۔

۲۔کسی ملک وطن سےمحض ایک جائےولادت یا رہائش یا آبائی علاقہ ہونے کے لحاظ سے محبت  اور اس کا اظہاردر حقیقت وطن پسندی ہے جوایک مباح اورایک فطری امر ہے،لیکن اس کا خاص ایمان یا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس میں مسلمان اور غیر مسلم سب شریک اور برابر ہیں۔

۳۔ کسی ملک اور وطن سے کسی اسلامی نسبت  اور تعلق کے تناظر میں محبت اور اس کا اظہاراگرچہ بظاہروطن پسندی ہے لیکن یہ در حقیقت اسلام پسندی اور خدا پرستی ہے جو شرعا محمود ہے۔

لہذاکسی  ملک،وطن اورعلاقے سے دین اسلام کے حوالے سے محبت یقینا ایمان کا حصہ ہے ،چنانچہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ اور مدینہ بلکہ یمن اور اہل یمن سے اظہارمحبت کرنا بھی منقول ہے۔

 باقی ملکی خود مختاری اور آزادی اور قومی کارناموں کی یاد میں یوم آزادی منانا تویہ بھی بحیثیت ایک قومی ثقافت کے  فی نفسہ ایک مباح اور جائز امر ہے،بلکہ ایک عظیم نعمت خداوندی کے تشکر کے تناظر میں منانا ایک امر مستحسن بھی ہے،چنانچہ قرآن مجید نے بھی قوم بنی اسرائیل کوانکے آباء واجداد کے فرعونی ظلم وجبر سے آزادی کی نعمت کو بطور خاص اورجابجایاد دلایا ہے اور اس نعمت کی قدر دانی اور احسان مندی کا مطالبہ بھی کیا ہےاور اسکے اظہار تشکر کا طریقہ بھی خود ہی بیان فرمادیا ہے کہ " اے بنی اسرائیل !اپنی کتاب توریت کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق  اس نعمت کے شکریہ میں تم لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت( خداوندی احکام اور قوانین کے عملی نفاذ) کی ہر کوشش کا ساتھ  دو گے اور اس بارے میں اپنی ذاتی قومی، اور جماعتی کسی بھی قسم کےدنیوی و  سیاسی مفادات کو رکاوٹ نہیں بناؤ گے، بلکہ انہیں قربان کرو گے اور خود بھی اللہ کے تمام احکام پر عمل کروگی اور اس کی ہر طرح کی نافرمانی سے بچو گے تو اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا اور ملک شام کی حکومت بھی تمہارے قبضہ میں رہے گی"بقرہ آیت نمبر۴۰(ماخوذ از تفسیر عثمانی وابن کثیر)

لہذااگر جشن آزادی محض  غیروں کے تسلط اورظالمانہ حاکمیت  اور ایذاء رسانی سے چھٹکارے اورملکی  خود مختاری وآزادی وقومی کارناموں کے تناظر میں منائی جائے تو اس لحاظ سے اس کا منانا ایک مباح اور جائزبلکہ ایک پسندیدہ امر ہے، کیونکہ اس دن منانے کو کوئی بھی دین کا حصہ یا کام سمجھ کر نہیں کرتابلکہ محض ایک قومی ثقافت کے طور پر منایا جاتا ہےاوراگراس کے ساتھ ساتھ کوئی اس  ملک کےاسلام کے نظریہ پر بننےیا دفاعی لحاظ سے امت مسلمہ کا مرکز ومنبع ہونے  وغیرہ اموردینیہ کے لحاظ سے  بھی محبت اور اس کا اظہارکرے تواسے  مذکورہ حدیث کی روشنی میں یقینا اسلام وایمان کی علامت بھی قرار دیاجائے گااورایسی صورت میں اچھی نیت کی وجہ سے اس مباح امرکی  نیکی کے کام میں بدلنےکی امید بھی کی جاسکتی ہے۔

لہذا اگرچہ مذہبی لحاظ سےاسلام میں محض ملکی آزادی یا وطنیت کے حوالے سے کوئی مستقل دن منانے اوراس حوالے سے تقریبات منعقد کرنے کا تصور نہیں پایا جاتا، لیکن چونکہ محض ملکی استقلال وقومی کارناموں کے تناظر میں منائے جانے کی وجہ سےاس دن منانے کو کوئی بھی دین کا حصہ یا کام سمجھ کر نہیں کرتا، لہذا فی نفسہ یہ ایک مباح اور جائز کام ہے،اوراگر اس کے ساتھ ملکی آزادی کے پس منظر میں بطور ایک بنیادی محرک وعامل کےاس علاقےکےمسلمانوں کےاسلام اور ایمان اور خودان مسلمانوں کی حفاظت اور بقاء جیسے امور بھی کار فرما ہوں تو ایسی صورت میں حسن نیت کی وجہ سےاجروثواب کی بھی امید کی جاسکتی ہے،جبکہ اظہار مسرت  وتشکرکےلیےایک خاص دن کو مختص کردینا محض انتظامی سہولت کے پیش نظرہو،لیکن واضح رہے کہ اس حوالےسےمنعقدتقریبات کے لیے شرعی حدود کی رعایت بھی ازحدضروری ہے، مثلا بے پردگی اور گانےباجے اورغیر ضروری تصویر کشی  اورغیرقوموں کی نقالی وغیرہ سے احتراز کیا جائے ۔نیزاس موقع پرپوری قوم بالخصوص ارباب اختیارواقتدار پر لازم ہے کہ قیام پاکستان کےوقت بحیثیت قوم اللہ تعالی سےکئے گئے عہد وپیمان کی تجدید کے ساتھ ساتھ ملک خدا داد میں نفاذ اسلام کی عملی کوششوں کو آگے بڑھا تے ہوئے انہیں حقیقی معنی اور رفتار میں  مکمل  کرنےکے لیے عملی اقدات کا آغاز کریں اور قانون خداوندی کے آئینہ میں خود اپنے عمل اور کردار کی اصلاح اور درستگی  بھی کریں تاکہ غیروں کی غلامی سے حقیقی آزادی حاصل ہو اور اللہ سے کئے گئے وعدوں سے روگردانی کے عذاب اور وبال سے ملک وملت نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور درحقیقت یہی (نفاذ اسلام کی عملی جد جہد والی)بات اس جشن آزادی  کے بارے میں اخلاص اورحسن نیت کی عکاس اور  حقیقی معیار ہے، ورنہ (احکام الہیہ سے روگردانی اور نفاذ اسلام سے بیزاری اوراللہ تعالی کی نافرمانی اور بغاوت اور غیروں کی غلامی کی صورت میں)جشن آزادی کا انعقاد نفس وشیطان کے دھوکہ اور خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
المقاصد الحسنة (ص: 297)
حديث: حب الوطن من الإيمان، لم أقف عليه، ومعناه صحيح في ثالث المجالسة للدينوري من طريق الأصمعي، سمعت أعرابيا يقول: إذا أردت أن تعرف الرجل فانظر كيف تحننه إلى أوطانه، وتشوقه إلى إخوانه، وبكاؤه على ما مضى من زمانه، ومن طريق الأصمعي أيضا، قال: قالت الهند: ثلاث خصال في ثلاثة أصناف من الحيوان، الإبل تحن إلى أوطانها، وإن كان عهدها بها بعيدا، والطير إلى وكره، وإن كان موضعه مجدبا، والإنسان إلى وطنه، وإن كان غيره أكثر نفعا،ولما اشتاق النبي صلى الله عليه وسلم إلى مكة محل مولده ومنشئه أنزل الله تعالى عليه قوله: {إن الذي فرض عليك القرآن لرادك إلى معاد} إلى مكة، وللخطابي في غريب الحديث من طريق إبراهيم بن محمد بن عبد العزيز عن أبيه عن الزهري، قال: قدم أصيل – بالتصغير – الغفاري على رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة قبل أن يضرب الحجاب، فقالت عائشة: كيف تركت مكة، قال: اخضرت جنباتها، وابيضت بطحاؤها، وأغدق إذخرها، وانتشر سلمها، الحديث، وفيه: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: حسبك يا أصيل لا تحزني، وهو عند أبي موسى المديني من وجه آخر، قال: قدم أصيل الهذلي فذكر نحوه باختصار، وفيه: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ويها يا أصيل تدع القلوب تقر.
كشف الخفاء ت هنداوي (1/ 398)
حب الوطن من الإيمان.
قال الصغاني: موضوع، وقال في المقاصد: لم أقف عليه، ومعناه صحيح، ورد القاري قوله ومعناه صحيح بأنه عجيب، قال: إذ لا تلازم بين حب الوطن وبين الإيمان، قال: ورد أيضا بقوله تعالى: {وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ} الآية2, فإنها دلت على حبهم وطنهم، مع عدم تلبسهم بالإيمان؛ إذ ضمير عليهم للمنافقين، لكن انتصر له بعضهم بأنه ليس في كلامه أنه لا يحب الوطن إلا مؤمن، وإنما فيه أن حب الوطن لا ينافي الإيمان, انتهى.
كذا نقله القاري ثم عقبه بقوله: ولا يخفى أن معنى الحديث حب الوطن من علامة الإيمان, وهي لا تكون إلا إذا كان الحب مختصًّا بالمؤمن، فإذا وجد فيه وفي غيره لا يصلح أن يكون علامة, قوله: ومعناه صحيح نظرًا إلى قوله تعالى حكاية عن المؤمنين: {وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا} 1 فصحت معارضته بقوله تعالى: {وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا} الآية2 الأظهر في معنى الحديث إن صح مبناه أن يحمل على أن المراد بالوطن الجنة, فإنها المسكن الأول لأبينا آدم على خلاف فيه أنه خلق فيها أو أدخل بعدما تكمل وأتم، أو المراد به مكة فإنها أم القرى وقبلة العالم، أو الرجوع إلى الله تعالى على طريقة الصوفية, فإنه المبدأ والمعاد كما يشير إليه قوله تعالى: {وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى} 3 أو المراد به الوطن المتعارف ولكن بشرط أن يكون سبب حبه صلة أرحامه، أو إحسانه إلى أهل بلده من فقرائه وأيتامه، ثم التحقيق أنه لا يلزم من كون الشيء علامة له اختصاصه به مطلقًا، بل يكفي غالبًا ألا ترى إلى حديث: حسن العهد من الإيمان, وحب العرب من الإيمان مع أنهما يوجدان في أهل الكفران انتهى. ومما يدل لكون المراد به مكة ما روى ابن أبي حاتم عن الضحاك قال: لما خرج النبي –صلى الله عليه وسلم- من مكة فبلغ الجحفة اشتاق إلى مكة فأنزل الله: {إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ} 4 قال: إلى مكة انتهى. وللخطابي في غريب الحديث عن الزهري قال: قدم أُصَيْلٌ –بالتصغير- الغفاري على رسول الله –صلى الله عليه وسلم- من مكة قبل أن يضرب الحجاب، فقالت له عائشة: كيف تركت مكة؟ قال: اخضرَّت جنباتها، وابيضَّت بطحاؤها، وأغدق إذخرها، وانتشر سلمها ... الحديث، وفيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "حسبك يا أصيل لا تحزني"، وفي رواية: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "ويهًا يا أصيل! تدع القلوب تقر".

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲ محرم۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب