021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اہلیہ کو دیےگئے مکان میں میراث کاحکم
69984میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

السلام علیکم

میرے والد صاحب تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لائے اور پھر یہیں سکونت اختیار کر لی ،پاکستان میں ملازمت شروع کردی ،شادی کی اور پہلی بیوی سے 6بچے ہوئے ،جن میں  4لڑکے اور دولڑکیاں شامل ہیں۔پاکستان ہجرت کے کچھ سال بعد انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی پاکستان بلالیا ،والد صاحب نے پانچ پلاٹوں پر مشتمل ایک گھر لے لیا جو اس امید کے ساتھ لیا تھا کہ اگر مزید بھائی پاکستان آنا چاہیں تو گھر میں رہائش کا مسئلہ نہ ہو،لیکن مزید بھائی نہ آسکے ،ایک پلاٹ کو والد صاحب نے چھوٹے بھائی کے حوالہ کردیا جسے والد صاحب نے بنوا کردیدیا۔چھوٹے بھائی کی ملازمت کے بعد شادی ہوگئی اور ان کی بیوی سے ان کے تین بچے ہوئے، جن میں 2لڑکے اورایک لڑکی شامل ہے،اچانک چھوٹے بھائی کی طبیعت ناساز ہوگئی اور کچھ عرصہ کی بیماری کے بعدان کا انتقال ہوگیا ،ان کے بچوں کی کفالت والد صاحب نے شرع کردی اور بعد میں بھائی کی بیوہ سے شادی کر لی ،تاکہ شرعی مسائل سے اجتناب بھی ہوسکے اور بچوں کی کفالت  بھی جاری رہ سکے۔

کچھ عرصہ بعد والد صاحب کی پہلی اہلیہ انتقال کرجاتی ہے،والد صاحب  کی دوسری بیوی سے دو بچے ہیں،ایک لڑکا اور لڑکی ۔کافی سال بعد والد صاحب نے گھر فروخت کردیا اور دو منزلہ گھر دوسرے علاقہ میں لے لیااور تمام افراد اس گھر میں منتقل ہوگئے ،یہ گھر والد صاحب نے اپنی دوسری اہلیہ کے نام کردیا اور نام کرنے کی وجہ مبہم ہے، آیا انہوں نے تحفتا کیا یا رسما ایسا کیا ،اس میں کوئی حتمی بات نہیں ہے۔

آپ جناب سے درخواست ہے کہ براہ کرم اس وراثت کے مسئلہ کو شرعی طورپر واضح کردیں ،اس جائیداد کے علاوہ والد صاحب کی یا ان کے چھوٹے بھائی کی کوئی اور جائیداد نہیں ہے،اب چونکہ  والد صاحب کی دوسری اہلیہ جن کے نام پر یہ گھر لیا گیا تھا وہ بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئی ہیں ،لہذا اس گھر کی تقسیم شرعی  تقاضوں کے ساتھ درکار ہے۔جزاکم اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب کے طور پر ترتیب وار چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں،تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔

1۔ جو وارث اپنے مورث کی زندگی میں فوت ہوجائے،اس کو بعد میں مرنے والے مورث کی میراث میں سے حصہ نہیں ملتا،مثلا:جو بیٹا اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوجائے،اس کے لیے بعد میں فوت ہونے والے والد کی میراث میں سے حصہ نہیں رکھا جاسکتاکہ وہ حصہ مرنے والے بیٹے کی اولاد میں تقسیم ہو۔یہی مثال میاں بیوی کی بھی ہے۔

2۔ شریعت میں سوتیلے بیٹے کو سوتیلے والد یا سوتیلی ماں  کی میراث میں سے حصہ نہیں ملتا۔ سگی اولاد کو حصہ ملتا ہے۔لہذا والد صاحب کی میراث میں دونوں بیویوں ،پہلی بیوی کے چھ بچے،اور دوسری بیوی سے ہونے والے دو بچوں کا حصہ ہوگا۔

جبکہ چچا(والد کے چھوٹے بھائی)کی میراث میں سے صرف اس کی بیوی اور اس کے اپنے تین بچوں کا حصہ ہوگا۔

آپ کی والدہ کی میراث ان کے اپنے چھ بچوں کو ملے گی۔اگر اس وقت آپ کے والد حیات تھے تو ان کا بھی حصہ ہوگا۔

جبکہ والد صاحب کی دوسری اہلیہ کی میراث ان کے پہلے نکاح سے ہونے والے تین بچوں اور دوسرے نکاح سے ہونے والے دو بچوں میں تقسیم ہوگی۔ اگر اس وقت آپ کے والد حیات تھے تو ان کا بھی حصہ ہوگا۔

3۔ اپنی زندگی میں کسی کو مکان دینا ہدیہ ہے،اور ہدیہ  میں محض کاغذات نام پر کرا دینے سے ملکیت نہیں آتی، بلکہ اس کےلیے باقاعدہ مکان حوالہ کرنا  بھی ضروری  ہوتاہے، اس طور پر  کہ اس مکان سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکربیوی کے حوالے کردے، جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کے  والد نے اپنا ذاتی سامان وہاں سے نکا ل کر ایک دفعہ مکمل طور پر آپ کی والدہ کو مکان  قبضہ  میں دیدیا ہو۔

اگراس طرح قبضہ دیا ہوتو مکان والدہ کی ملکیت میں آجائے گا،اور پھر والد کے فوت ہونے کے بعد میراث میں تقسیم نہیں ہوگا،اگر اس کے مطابق عمل نہیں ہوا،تو فقط کاغذات میں نام کروانے سےوالدہ کی ملکیت نہیں آئے گی،اور پھر والد کے فوت ہونے کے بعد وہ مکان میراث کا حصہ ہوگا ،جو تمام ورثہ کے درمیان وراثت کے طور پرشریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

4۔چار افراد کی میراث تقسیم ہوگی،لہذا یہ بتانا لازم ہے کہ یہ کب فوت ہوئے اور ان کے فوت ہوتے وقت ان کے  کون کونسے ورثہ حیات تھے؟تاکہ ان کے حصے بتانے میں آسانی ہو

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

23/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب