021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وارث کا ترکہ میں سے ایک پلاٹ کے ہبہ کا دعوی کرنا
70398ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں،والد صاحب کا انتقال ہوئے عرصہ ہوگیا،والدہ کا انتقال ڈیڑھ سال پہلے ہوا،ہم بھائیوں میں سے تین بھائی پاکستان میں رہتے ہیں اور تین بھائی ملک سے باہر ہیں،والدہ کے انتقال کے دوسرے دن ایک بھائی نے بتایا کہ والدہ زندگی میں جائیداد میں سے ایک پلاٹ ہم تین بھائیوں کے نام کرگئی ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں،اس بات کو کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ہے،البتہ والدہ نے زندگی میں اس بات کا ذکر ایک بہن سے کیا تھا کہ وہ ایسا کرنے لگی ہیں۔

اب جب وراثت کی تقسیم کا وقت آیا اور وہ پلاٹ بکا تو ایک بھائی جو ملک سے باہر ہوتے ہیں انہوں نے اپنا حصہ مانگا کہ میرا بھی اس پلاٹ میں حق ہے،اب چونکہ کوئی تحریر موجود نہیں تو مسئلہ بن گیا،اب آپ سے سوال یہ ہے کہ آیا یہ پلاٹ وراثت کا حصہ بن کر سب وارثوں میں تقسیم ہوگا یا صرف وہ بھائی جو پاکستان میں رہتے ہیں اسے لینے میں حق بجانب ہیں؟

تنقیح:

سائل سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جس پلاٹ کے ہبہ کا دعوی کیا جارہا ہے وہ والدہ کی ذاتی ملکیت تھا،مرحوم والد کی جائیداد میں سے نہیں تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر اس پلاٹ کا رقبہ اتنا زیاہ ہے کہ تین حصوں میں تقسیم کے بعد بھی انتفاع کے قابل رہے گا تو پھر والدہ کی جانب سے کیا گیا ہبہ درست نہیں ہوا،کیونکہ ہبہ درست ہونے کے لیے قابل تقسیم چیز کو تقسیم کرکے حوالے کرنا ضروری ہے،جبکہ مذکورہ صورت میں انہوں نے اس پلاٹ کو باقاعدہ تقسیم کرکے ہر بیٹے کو اس کا حصہ نہیں دیا،بلکہ پورا پلاٹ بغیر تقسیم کے انہیں ہبہ کردیا۔

اور اگر یہ پلاٹ تقسیم کے قابل نہیں،یعنی تقسیم کے بعد قابل انتفاع نہیں رہے گاتو پھر اس بھائی  کے ذمے جو اس بات کا دعویدار ہے کہ یہ پلاٹ والدہ نے پاکستان میں رہنے والے بھائیوں کے نام کردیا تھا، لازم ہے کہ وہ اپنے اس دعوی کو عدالت یا پنچائیت کے سامنے دو مردوں یا ایک مرد اور بہن سمیت مزید ایک عورت کی گواہی سے ثابت کرےکہ والد ہ نےجائیداد میں سے یہ پلاٹ ان بھائیوں کو ہبہ کرکے ان کے قبضے میں بھی دے دیا تھا،کیونکہ قبضہ دیئے بغیر صرف نام کروانے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا اور ایسی چیز میراث کا حصہ ہوتی ہے، صرف ایک بہن کی گواہی کافی نہیں ہے۔

اگر اس بھائی نے گواہوں کے ذریعے اپنےاس دعوی کو ثابت کردیا تو فیصلہ ان کے حق میں کردیا جائے گا،لیکن اگر وہ اپنے دعوی کو دو گواہوں سے ثابت نہ کرسکے تو اس بھائی سے جو اس پلاٹ میں حصے کا مطالبہ کررہا ہے یوں قسم لی جائے گی کہ اسے اس بات کا علم نہیں کہ اس کی مرحوم والدہ نے یہ پلاٹ ان  بھائیوں کو  جو پاکستان میں رہتے ہیں ہبہ کردیا تھا،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالے تو یہ پلاٹ بھی والدہ کے ترکہ( انتقال کے وقت جو بھی چھوٹا بڑا سامان سونا،چاندی،نقدی اور جائیداد وغیرہ کی صورت میں ان  کی ملکیت تھا)میں شامل ہوکر ان کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 690):
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به).....
 (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع ".
"رد المحتار"(5/ 697):
"(وهب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا قيدنا بكبيرين؛ لأنه لو وهب لكبير وصغير في عيال الكبير أو لا بنيه صغير وكبير لم يجزاتفاقا".
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني" (8/ 325):
"وشهادة الأخ لأخيه مقبولة، والأصل قوله تعالى: {واستشهدوا شهيدين من رجالكم} (البقرة: 282) من غير فصل بين القريب والأجنبي، فهو على الكل إلا ما صار مخصوصاً عنه، ولما خص عنه شهادة الوالد والمولودين بالإجماع، وتخصيص الوالدين والمولودين لا يوجب تخصيص الأخ والأخت؛ لأن الظاهر فيما بين الأخوة والأخوات العداوة، دليله: قصة يوسف عليه السلام، وهذا الجواب لا يشكل فيما إذا شهد لأخيه والأب مّيت، إنما يشكل فيما إذا شهد لأخيه والأب حيّ، وينبغي أن لا تقبل شهادته، لأن منافع الأملاك بين أبيه وأخيه متصلة، وإذا شهد لأخيه فكأنه شهد لأبيه، والجواب: شهادة الإنسان لأبيه إنما لا تقبل؛ لأن منافع الأملاك بين الأب وبين الابن متصلة، فكانت الشهادة للأب شهادة لنفسه من وجه، وشهادة الإنسان لنفسه لا تقبل، وأما شهادته لأخيه ليست بشهادة لنفسه أصلاً؛ لأن منافع الأملاك بين الأخوين متباينة لا ينتفع الأخ بمال أخيه لا ابتداءً ولا بواسطة الأب، فلم تكن هذه شهادة لنفسه (121ب4) بوجه ما فقبلت.
وإذا ثبت الكلام في الكلام في الأخ ثبت في الأخت؛ لأنهما سيان في القرابة".
"البحر الرائق " (7/ 217):
"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب