03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت میں قبضہ سے پہلے اپنے حصہ کا ہدیہ
70690ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ زید کے والد صاحب نے 1983 میں ایک زمین خریدی، پھر اس پر زید کے والد اور چچا نے مل کر تعمیر کی، اس زمین کو زیدکے والد صاحب نے اپنی والدہ کے نام سے خریدا، نیچے والی منزل زید کے والد نے بنوائی، اوپر والی چچا نے بنوائی، اس گھر میں زید کے والد، چچا اور دادا  دادی رہتے تھے، لیکن زید کے والد اور چچا بیرون ملک نوکری کی وجہ سے رہتے تھے، صرف چھٹیوں میں گھر آتے تھے۔

پھر 1993 میں زید کے نانا کے مشورے پر اس گھر کو (Oral Gift Deed) کے تحت زید کی دادی نے باقاعدہ طور پر اپنے دونوں بیٹوں یعنی زید کے والد اور چچا کو آدھا آدھا (Share  ٪50 )  دے دیا۔

دراصل اس گھر کی زمین اور تعمیر میں زید کے والد اور چچا کے ہی پیسے لگے تھے، اور غالباً زید کی دادی کے نام سے زمین خریدنے کی مصلحت یہ تھی کہ زید کے والد اور چچا دونوں بیرون ملک تھے، کیوں کہ دادی کے نام پر ہونے سے بہت سی آسانیاں تھیں، مثلاً بجلی اور پانی کی لائن حاصل کرنا وغیرہ۔

پھر اگست 2002  میں زید کے والد صاحب کا سعودی عرب میں انتقال ہوگیا۔ زید کے والد نے ترکے میں سترہ لاکھ پچپن ہزار روپیہ  (1755000) چھوڑے ہیں، اس کے علاوہ والد صاحب کے ذاتی استعمال کی چیزیں، مثلاً کپڑے، گھڑی وغیرہ اور اوپر ذکر کئے ہوئے گھر کا  ٪50  فیصد حصہ بھی شامل تھا، زید نے کسی معتمد مفتی سے ترکہ کا مسئلہ دریافت کیا تھا، تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ ترکے کے کل 48 حصے بنیں گے۔

1۔  زید اور اس کے بڑے بھائی 48/13 حصہ  (دونوں کے الگ الگ 13  حصے)

2۔  زید کے دادا اور دادی کا 48/8 حصہ (دونوں کے الگ الگ 8  حصے)

3۔  زید کی والدہ کا  48/6  حصہ

جب زید کی والدہ نے زید کے دادا  دادی کو بتلایا کہ ان کے حصے میں یہ تمام چیزیں آئی ہیں تو دادا  دادی نے فرمایا کہ ہمیں تو کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دادا  دادی کو نقدی کے حصے کی اصل رقم کے بارے میں بتایا تھا جو کہ 293085 روپے تھی۔ اس پر دادا  دادی نے فرمایا کہ ہمیں ترکے میں سے کوئی چیز نہیں چائیے، لیکن دادا  اور دادی نے اپنے اپنے حصے میں سے ایک لاکھ روپے یعنی 200000  (بہت اصرار کے بعد)لے لئے۔

دراصل اس رقم کو لینے کا مقصد بھی زید کے مرحوم والد کے لئے کچھ صدقہ جاریہ کرنا تھا۔

واضح رہے کہ یہ رقم سعودیہ سے زید کی والدہ کے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں بھیجی گئی تھی، یعنی زید کے دادا  دادی کو ان کا پورا حصہ ان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا، صرف زبانی بتایا تھا کہ ترکے کی نقدی میں ان کا کتنا حصہ ہے جیسے کہ اوپر رقم عرض کی۔ بعد میں زید کو شبہ ہوا کہ حصے داروں کو بالخصوص دادا  دادی کو ان کا پورا حصہ (نقدی کا) ان کے حوالے نہیں کیا گیا اور یہ شبہ زید نے دار العلوم، کورنگی کے مفتی عبد المنان صاحب دامت برکاتہم سے فون پر دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیوں کہ دادا  دادی نے اپنے حصے سے کچھ لے لیا (یعنی ایک لاکھ روپیہ)۔ اس لئے آپ پریشان نہ ہوں، ترکے کی تقسیم صحیح ہوگئی، زید اور اس کے بھائی نے اپنا نقدی حصہ والدہ کو دے دیا، کیوں کہ وہ دونوں طالب علم تھے، اور ان کے تمام اخراجات والدہ اٹھاتی تھیں۔

رہا گھر کا معاملہ، تو ورثاء کے باہمی مشورے سے یہ طے ہوا کہ مرحوم کا جو  ٪50  فیصد گھر میں حصہ ہے تو 25  فیصد زید کا ہوگا اور 25 فیصد زید کے بڑے بھائی کا۔

گویا کہ زید کے دادی  دادا اور والدہ گھر کے حصے سے دستبردار ہوگئے، اگرچہ سب لوگ ساتھ رہتے رہے، اس مقصد کے لئے قانونی طور پر (سب کے دستخط کے ساتھ) ایک (Relin Quishment Deed) تیار کی گئی، اس کے بعد K.D.A کے تحت  Mutation  بھی بنائی گئی، جس میں زید کے چچا کا  50  فیصد حصہ برقرار رکھا گیا، اور زید اور اس کے بڑے بھائی کا 25   فیصد،25   فیصد  حصہ درج ہوا۔

2018  میں زید نے مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم اداء کرکے اپنے بڑے بھائی سے ان کا حصہ بھی خرید لیا، لیکن کچھ وجوہات کے سبب اسی معاملے کی  (Sale Deed)  نہیں بنائی گئی، بلکہ (Oral Gift Deed)  بنائی گئی۔

 بعد میں تقریباً 16 سال کے بعد زید نے  J.T.R میڈیا کے یکم اکتوبر 2018  کے Youtube  (آپ کے مسائل) پروگرام میں مفتی عابد شاہ صاحب سے یہ بات سنی کہ ترکے کا معاملہ دَین کی طرح نہیں ہوا کرتا بلکہ شریعت میں یہ عین شمار ہوتا ہے، اور شریعت میں عین کو دَین کی طرح معاف نہیں کیا جاسکتا، اور اس کے لئے ہبہ کا کانٹریکٹ لازمی ہے، اور اس کی بھی تین شرائط بیان فرمائی تھیں۔

زید کو وہ سن کر شبہ ہوا تو آپ سے اس مسئلے پر رہنمائی چاہتے ہیں۔

مفتی عابد شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ عام طور سے ترکے میں مختلف چیزیں ہوتی ہیں اور مشاع کا ہبہ درست نہیں، اور صلح کرنی ہوتی ہے، اور مفتی صاحب نے یہ شرط بھی بیان کی کہ جو شخص ترکے سے دستبردار ہونا چاہتا ہے تو اس کا عوض ترکے میں اس کے نقدی حصے سے زیادہ ہونا چاہئیے، ورنہ سود (Riba) لازم آئے گا۔ اب اس تفصیل کے عرض کرنے کے بعد کچھ سوالات درج ذیل ہیں:

1۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق 1993  میں جو ہبہ کے کاغذات بنائے گئے تو اس سے شرعا ہبہ معتبر ہوئی یا نہیں؟

واضح رہے کہ زید کی دادی نے ہبہ کے واسطے زید کے والد اور چچا کو کسی خاص عمل سے گھر حوالے نہیں کیا، اور حسب سابق سب لوگوں کا قیام گھر میں ہی رہتا، البتہ زید کے والد کے انتقال (2002) کے دو یا تین مہینے بعد زید کے دادا  دادی اور چچا کسی اور جگہ شفٹ ہوگئے۔ زید نے مفتی حسین خلیل خلیل سے یہ بات سنی کہ اگر قانونی طور پر کاغذات مثلا Gift Deed  بنالی جائے تو شرعاً معاملہ معتبر ہوجاتا ہے۔

دادا  دادی پہلے (انتقال کے چند ماہ بعد) اوپر والے گھر میں گئے، پھر ایک /دو سال بعد دوسرے گھر (وہ بھی چاچا کا ہے) اس میں منتقل ہوگئے۔

2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ مفتی عابد شاہ صاحب کے بتائے ہوئے مسئلے سے زید کو شبہ ہوا ہے کہ دادا  دادی کے ساتھ جو معاملہ ہوا تھا اس میں صلح کی تمام شرائط پوری نہیں ہوئیں، کیوں کہ انہوں نے نقدی سے صرف ایک لاکھ روپے لئے جب کہ مفتی عابد شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ معاملہ صحیح ہونے کے لئے ترکے میں جو نقدی کا حصہ تھا اس سے زیادہ پر صلح کرنی چاہئے تھی، زید کی دادی حیات ہیں، دادا کا انتقال ہو گیاہے۔

2 A۔ سوال یہ ہے کہ زید کی دادی کو کتنی اور رقم اداء کرنی ہوگی شرعاً معاملہ ٹھیک ہونے کے لیے؟

2 B۔ کیوں کہ دادا کا انتقال ہوچکا ہے تو دادا کو اگر رقم اداء کرنی تھی تو یہ رقم اگر دادا کے حق میں کچھ بنتی ہے تو ان کے ورثاء کو کیسے اداء کریں گے؟

دادا کے تمام ورثاء حیات ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے:

ایک بیوہ (زید کی دادی)

ایک بیٹا

 آٹھ (8) بیٹیاں

3۔  ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس تفصیل کے مطابق زید، اس کے بڑے بھائی اور والدہ کے درمیان ترکے کی تقسیم کا معاملہ شرعا ٹھیک ہے یا کسی کے ذمے کوئی ادائیگی باقی ہے، کیوں کہ زید اور اس کے بھائی نے گھر میں سے حصے لے لیے، اس لئے سوال نمبر 2  میں جو صلح کا معاملہ ذکر کیا ہے کیا اس سے متعلق کوئی اور شرعی تقاضے ہیں؟

4۔  2018  میں جو زید اور اس کے بھائی کے درمیان جو معاملہ ہوا وہ شرعاً معتبر ہوا یا نہیں، زید اور اس کے بھائی ابھی تک اسی گھر میں ساتھ رہتے ہیں مگر چند ماہ بعد زید کے بھائی دوسری جگہ منتقل ہونے والے ہیں، کیوں کہ اصل میں معاملہ بیع کا تھا اور زید نے رقم بھی اداء کردی تھی، لیکن قانوی طور پر پہلے ہبہ کے کاغذ بنے ہیں، اس میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب زید نے اپنے بڑے بھائی سے ان کا حصہ خریدنے کا ارادہ کیا تو زید کے بڑے بھائی نے دو مختلف اسٹیٹ ایجنٹ سے گھر کی قیمت دریافت کی تھی، دونوں نے الگ الگ قیمت بتائی جس میں تقریباَ پچاس (50) لاکھ کا تفاوت تھا۔

زید اس وقت سعودیہ میں تھا اور والدہ کے کہنے پر ان دونوں قیمتوں کی (Estimated value) کے تقربیاً درمیان میں جو قیمت بنی وہ والدہ کے ساتھ زبانی فون پر طے پائی، اور زید نے وہ رقم اپنی والدہ کو پاکستان بھیج دی، وہ رقم زید کے بھائی کے کہنے پر والدہ کے اکاؤنٹ میں ہی رہی، اور زید کے بھائی کو اطلاع کردی کہ رقم بھیج دی گئی ہے۔ پھر چند ہفتے بعد جب زید پاکستان گئے تو ایک وکیل کے ذریعے رجسٹرار آفس میں جاکر (Oral Gift Deed) کی کاغذی کارروائی مکمل کی، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا کہ اس پورے معاملے کی کوئی (Sale Deed) نہیں بنی اور صرف (Oral Gift Deed) بنائی گئی تھی، نہ ہی زید اور اس کے بھائی کے درمیان کوئی لکھت پڑھت ہوئی۔ بلکہ کسی مجلس میں یا کسی گواہ کے سامنے اس بیع سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، یعنی بیع کا معاملہ صرف زید کی والدہ کے ذریعے فون پر ہوا تھا جیساکہ پہلے عرض کیا گیا۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے کہ شرعاً یہ بیع منعقد ہوگئی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو اس بیع کے انعقاد کا کیا طریقہ ہوگا؟

واضح رہے کہ زید اپنے بھائی کو تمام رقم اداء کرچکا ہے، اور وہ دوسرا گھر خرید چکے ہیں اور چند ماہ بعد وہاں منتقل ہوں گے۔

5۔  سوال ایک یہ بھی ہے کہ زید کے والد کی جو چیزیں تھیں مثلاً گھڑی، کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ گھر میں مشترکہ استعمال کی جانے والی اور بھی بہت چیزیں تھیں مثلا چولہا، فریج، صوفے اور دیگر فرنیچر وغیرہ تھے، لیکن شرعی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے ان مشترکہ چیزوں کا کوئی مالک متعین نہیں تھا، اور یہ ”گھر کی چیزیں“ سمجھی جاتی تھیں، جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا، زید کے دادا نے صراحتاً یہ فرمایا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیئے (70  ہزار) نقدی کے علاوہ، اسی طرح زید کے بڑے بھائی نے اپنے مرحوم والد کی کچھ چیزوں کا غالباً مطالبہ کیا، جیسے قمیض وغیرہ اور وہ ان کو دے دی گئیں، زید نے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ زید کے والد کے انتقال کے چند سال بعد ان کے دادا  دادی  دوسری جگہ منتقل ہوگئے، اس موقع پر زید کی والدہ نے ان سے پھر پوچھا تو انہوں نے یہی بات دہرائی کہ مجھے کوئی نہیں چاہئیے۔

سوال یہ عرض کرنا ہے کہ زید کے دادا  دادی کے عدم مطالبے اور اسی طرح خود زید اور اس کے بڑے بھائی کے عدم مطالبے سے کیا شرعی طور پر یہ بقیہ چیزیں زید کی والدہ کی ملکیت سمجھی جائیں گی؟

گھر میں تقریباً پچھلے پندرہ سال سے مستقلاً زید کی والدہ اور بڑے بھائی رہتے تھے اور زید صرف چھٹیوں میں وہاں جاتا ہے، اور اب زید کے بھائی بھی چند ماہ میں ایک دوسری جگہ منتقل ہونے والے ہیں۔ گویا کہ گھر میں یہ سب مشترکہ چیزیں والدہ ہی کی ملکیت شمار ہوتی ہیں، اور وہی ان پر سب کی خوشی سے تصرف فرماتی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ چیزیں زید کے والد مرحوم نے اپنے پیسوں سے خریدی تھیں۔ فقط  والسلام۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔یہ پلاٹ اور مکان اصل کے اعتبارسے زیدکے والد اور چچا کےہی تھے،انہوں نے صرف کاغذات کی حد تک والدہ کے نام کردیا تھا،اور کاغذات میں نام کرنے سے چیز کی ملکیت منتقل نہیں ہوتی،اس کے لیے قبضہ دینا ہوتا ہے،جبکہ یہاں قبضہ کی صورت نہیں پائی گئی ،بلکہ تمام حضرات ساتھ ہی رہائش پذیر تھے۔اس لیے بعد میں زید کی دادی کی جانب سے اپنے دوبیٹوں کو مکان کی منتقلی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔وہ شروع ہی سے ان دوبیٹوں کی ملکیت ہے۔

(2)۔ واضح رہے کہ میراث میں  چونکہ مختلف اشیاء ہوتی ہیں،دین کی صورت میں بھی یعنی قرض یا واجب الاداء رقم جو میت کی دوسروں کے ذمہ ہواور عین کی صورت میں بھی ،یعنی میت کے ترکہ میں موجود نقدی ،جائداد اور ہر قسم  کا سامان ،اس لیے  دین میں قبضہ سے پہلے اورعین کی صورت میں جو اشیاء  ہوں  ان میں نہ معافی ہوسکتی ہے اور نہ دستبرداری معتبر ہے، اور مشترکہ مال ہونے کی بناء پر ہدیہ بھی ممکن نہیں۔

  اگر کوئی اپنا حصہ دوسرے سب ورثاء یا کسی خاص وارث کو دینا چاہیں تو شرعا اس کی گنجائش تب ہوسکتی ہے جب 

مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جائے:

1۔ ہرایک کا حصہ الگ کیا جائے ،اسے اپنے حصہ پرقبضہ اور مکمل اختیار دیا جائے اور اس کے بعد  وہ  اپنی خوشی و رضامندی سے اپنا حصہ سب ورثہ  میں تقسیم  کر دے یا کسی ایک کو دیدے ۔

2۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ باقی ورثہ ان کو  میراث میں سےکوئی چیز  دیدیں،اور وہ  میراث میں سے اپنا بقیہ حصہ معاف  کردیں۔ یا باقی ورثہ ان کو  اپنی ذاتی ملکیت سے بطورعوض کوئی چیز  دیدیں،اور وہ  میراث میں اپنا حصہ معاف  کردیں۔

 دوسری صورت میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر  نقدی کی صورت میں  متبادل یا عوض دینا چاہتے ہیں تو میت کی نقدی میں ان کا جتنا حصہ  بنتا ہے، عوض اس سے زائد ہونا چاہیے، تاکہ عوض میں موجود کچھ نقدی ،میراث میں ان کے حصے  کی نقدی کے برابر اور زائد نقدی دوسرے  زائد سامان کے مقابلے میں آجائے ،نیز میراث میں ان کے حصے کی نقدی  کے برابر عوض پر عقد کی مجلس میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے کہ یہ بیع صرف ہے جس میں برابری  اور مجلس میں قبضہ  ضروری ہے .

موجودہ مسئلے میں دوسرے طریقے پر عمل ہوا ہے ،جبکہ جس قدر بطور صلح نقدی بنتی تھی اس سے  کم دی گئی ہے، لہذا اس قدر نقدی کی ادائیگی ہوگئی ہے،باقی کی ادائیگی اک نئے عقد کے طور پر ضروری ہے۔

دادی حیات ہیں،ان کا جس قدر حصہ رہتا ہے وہ ادا کیا جائے،(ان کا کل حصہ 292500 بنتا ہے،ایک لاکھ ان کو مل چکے  ہیں،بقیہ سے کچھ زیادہ ان کو دیدے جائیں)جبکہ دادا فوت ہوچکے ہیں،لہذا ان کا  بقیہ حصہ(جس کی تفصیل دادی کے حصے میں گزر چکی ہے) ان کے ورثہ میں اسی حساب سے تقسیم کیاجائے:

بیوہ:12.5فیصد۔

بیٹا:17.5 فیصد۔

ہربیٹی:8.75فیصد۔

(3/4) ۔گھر میں دادا،دادی اور والدہ کا بھی حصہ تھا،دادا ،دادی نے وہ زید اور بھائی کو حوالے کرکے خود وہاں سے رہائش منتقل کردی تھی،ان کا حصہ تو زید اور بھائی کی ملکیت میں آیا،والدہ نے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد ہدیہ توکردیاہے،مگر حوالے نہیں کیا ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ والدہ کا حصہ لے کر دوبارہ نئے سرے سے عقد کر کے گھر بھائی سے لیاجائے ،اس کےلیے وہی پرانی قیمت بھی مقرر کی جاسکتی ہے۔ والدہ سے حصہ لینے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ کچھ واجبی سی قیمت میں گھر میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کردے،ہدیہ کا طریقہ بھی ہے،مگر اس میں قبضہ دینے کےلیے گھر کو باقاعدہ تقسیم کرنا پڑےگا جو ظاہر ہے کہ مشکل ہوگا۔

5۔یہ بھی میراث کا مال ہے،لہذا یہ بھی ورثہ میں تقسیم ہوگا،اس کا آسان طریقہ یہ ہےکہ ان تمام چیزوں کی قیمت لگائی جائے،ہرایک کو اس کے حصے کے مطابق رقم حوالے کی جائے۔پھر اس کی مرضی ہے کہ رقم اپنے پاس رکھے یا واپس کردے۔

حوالہ جات

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49):

قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - :   "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔

وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ-  :

 " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ "

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 642):

(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 642):

(قوله لكن بشرط) قال في البحر: ولا يشترط في صلح أحد الورثة المتقدم أن تكون أعيان التركة معلومة، لكن إن وقع الصلح عن أحد النقدين بالآخر يعتبر التقابض في المجلس غير أن الذي في يده بقية التركة إن كان جاحدا يكتفي بذلك القبض، لأنه قبض ضمان فينوب عن قبض الصلح، وإن كان مقرا غير مانع يشترط تجديد القبض اهـ (قوله: أكثر من حصته) فإن لم يعلم قدر نصيبه من ذلك الجنس، فالصحيح أن الشك إن كان في وجود ذلك في التركة جاز الصلح، وإن علم وجود ذلك في التركة لكن لا يدري أن بدل الصلح من حصتها أقل أو أكثر أو مثله فسد بحر عن الخانية

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 178):

(والمعتبر تعيين الربوي في غير الصرف)

 (قوله والمعتبر تعيين الربوي في غير الصرف) لأن غير الصرف يتعين بالتعين، ويتمكن من التصرف فيه، فلا يشترط قبضه كالثياب أي إذا بيع ثوب بخلاف الصرف، لأن القبض شرط فيه للتعيين، فإنه لا يتعين بدون القبض كذا في الاختيار

وحاصله أن الصرف وهو ما وقع على جنس الأثمان ذهبا وفضة بجنسه أو بخلافه لا يحصل فيه التعيين إلا بالقبض فإن الأثمان لا تتعين مملوكة إلا به ولذا كان لكل من العاقدين تبديلها أما غير الصرف فإنه يتعين بمجرد التعيين قبل القبض۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

07/ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب