021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم کا حکم
70665ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

اگر پیسہ اور کاروبار باپ کا ہو اور بیٹا بڑا ہوکر اس میں شامل ہوجائے تو اس میں بیٹے کا کیا حصہ ہوگا؟ باپ کے کاروبار میں اس کی اولاد کا کتنا حق ہوتا ہے؟ کیا ساری اولاد کو اس کاروبار سے حصہ ملے گا یا باپ اپنی مرضی سے کسی ایک کو وہ گفٹ کرسکتا ہے؟ زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کا کیا حکم ہے، کیا کسی ایک کو زیادہ حصہ دیا جاسکتا ہے؟ مثلا اگر باپ کاروبار اور دکانیں یہ کہہ اپنے بیٹے کو دیدے کہ یہ کاروبار تو اس نے ہی بڑھایا ہے تو کیا یہ صحیح ہوگا؟ باپ کو اپنے والد سے ترکہ میں ایک مکان اور دکان ملی تھی، اگر والد اپنی زندگی میں اس ترکے کا بڑا حصہ یعنی گھر لڑکے کے نام کردے اور لڑکی کو دکان یہ کہہ کر دیدے کہ اس کی مالیت 40 لاکھ ہے، یہ ہم تمہیں حصے میں دیں گے جوکہ آپ کا بھائی ہی ادا کرے گا۔ بھائی نے وہ دکان بیچ دی اور اس کے بدلے دوسری دکان لے کر بہن کو دیدی جس کی مالیت 65 سے 70 لاکھ ہوگی، یا اس سے کم بھی ہوسکتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ والد نے اپنی زندگی میں بیٹے کو کاروبار، دو دکانیں اور گھر گفٹ کردیا جن کی کل مالیت 10 کروڑ روپے ہے۔ اور بیٹی کو ایک دکان دیا جس کی تفصیل اوپر بیان ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا شرعی لحاظ سے یہ تقسیم درست ہوئی یا نہیں؟ کیا والد اپنی مرضی سے بیٹے کو زیادہ اور بیٹی کو کم دے سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کاروبار اور سرمایہ سارا والد کا ہو، بیٹا اپنے والد کے ساتھ اس کو چلائے تو شرعا کاروبار والد کا ہی شمار ہوگا۔  

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہےکہ بیٹوں اور بیٹیوں کو ایک جتنا حصہ دے۔ تاہم یہ بھی جائزہےکہ  میراث کے قاعدہ کےمطابق تقسیم کرے، یعنی  بیٹے کو بیٹی کےمقابلہ میں دگناحصہ دے۔ لیکن بیٹی کو بلاوجہ اس سےکم دینایابالکل محروم کرناجائزنہیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو سخت گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر کوئی اولاد زیادہ فرمانبردار، نیک، زیادہ ضرورت مند ہو یا اور کوئی وجۂ ترجیح ہو تو پھر اسے دوسری اولاد سے کچھ زیادہ دینا بھی درست ہے، بشرطیکہ دوسروں کو نقصان پہنچانامقصود نہ ہو۔ واضح رہے کہ صرف زبانی یاتحریری طور پر دینے سے جائیداد اولاد کی ملکیت میں نہیں آئے گی؛ شرعا ہبہ کی تکمیل کے لیے قبضہ ضروری ہے، لہٰذا اولاد کی ملکیت میں وہی چیزیں آئیں گی جس کا والد صاحب ان کو باقاعدہ قبضہ دیں گے۔

صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کا بیٹے کو کاروبار چلانے کی وجہ سے کچھ زیادہ حصہ دینا درست ہے، لیکن بیٹے اور بیٹی کے حصوں میں اتنا زیادہ فرق رکھنا درست نہیں جو سوال میں مذکور ہے۔ اگر والد صاحب ابھی زندہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ بیٹی کو بھی مزید کچھ رقم یا جائیداد وغیرہ دے تاکہ اس فرق کی تلافی ہوسکے، اور اگر وہ انتقال کرچکے ہیں تو بھائی کو چاہیے کہ اپنی بہن کو مزید کچھ نہ کچھ دیدے۔  

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2 / 183):
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : " فأرجعه " . وفي رواية : أنه قال : " أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور "
مرقاة المفاتيح (9 / 471):
 قال النووي: فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا. قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الانثيين، والصحيح الأول؛ لظاهر الحديث، فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي ومالك وأبى حنيفة رحمهم الله تعالى أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة، وقال أحمد والثوري وإسحاق رحمهم الله وغيرهم هو حرام.
حاشية ابن عابدين (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في
الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن
أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

7/ربیع الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب