021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مسلم ممالک میں مسلما نوں کو کس نیت سے رہنا چاہیے
72541اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

غیر مسلم ملک میں کس نیت سے رہ سکتے ہیں ؟سنا ہے کہ عیش وعشرت کی نیت سے نہیں رہ سکتے ،جو مسلمان رہ رہے ہوں ان کو کیا نیت رکھنی چاہیے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسلمانوں کےلیے تواصل یہی ہے کہ اپنےممالک میں ہی رہائش اختیار کریں اور بغیرضرورت وحاجت کےغیرمسلم ممالک میں جانا نہیں چاہیے،کیونکہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ مختلف قسم کے مسائل خصوصاً بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی سارے واقعات پیش آتے  ہیں۔

البتہ اگر کوئی شخص تعلیم ،علاج معالجہ ،ملازمت یا اپنے ملک کے اَبتر حالات اور ظلم و ستم سے  جان و مال کی حفاظت کی غرض سے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرتاہے جو اسکی شرعا ًگنجائش ہے،بشرطیکہ وہ  اپنے دین پر کاربند رہ سکتا ہو اور وہاں کے منکرات و فواحش سے خود کو اور اپنی اولادکو  محفوظ رکھ سکتا ہو، جیساکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نےغیر مسلم ملک( حبشہ)میں پناہ لی تھی۔

تاہم اگر کوئی شخص اپنی معیارِ زندگی کو  بلند کرنے، خوش حالی اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے لیے  وہاں جاتا ہے،تو یہ  کراہت سے خالی نہیں،اسی وجہ سے  حضورِ اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے کفار کے درمیان اقامت(نیشنلٹی) اختیار کرنے کوکفار کی مماثلت قرار دیا۔ جو شخص مسلمانوں پر بڑائی کے اظہار کے لیے دارالکفر کو دارا لا سلام پر ترجیح دیتا ہے تو یہ  شرعاً جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 93)
 عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله»۔
شرح سنن أبي داود للعباد (328/ 14، بترقيم الشاملة آليا)
وهي: باب في الإقامة بأرض الشرك، أي: ليس للإنسان أن يقيم في أرض المشركين وأن يساكنهم وأن يكون معهم، لئلا يحصل منهم تأثير عليه.
ولكن إذا كان بقاؤه بين المشركين لا يمنعه من أن يقيم فيهم شعائر دينه، وكان يستطيع أن يدعو الكفار إلى الدين الإسلامي، وكذلك يدعو المسلمين فيه إلى الله على بصيرة، ليتمسكوا بإسلامهم، وليحافظوا على شعائر دينهم، وليظهروا للكفار أحكام الإسلام حتى يعرفها الكفار، وحتى يكون ذلك سبباً في إسلام الكفار؛ فإنه لا بأس بذلك.وقد أورد أبو داود حديث سمرة بن جندب رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من جامع المشرك وسكن معه فهو مثله)؟ ومعناه: من اختلط به وامتزج به وسكن معه فإنه يكون مثله؛ لأن الاحتكاك قد يؤثر، والمشابهة في الظاهر قد يحصل منها تأثير على الباطن، فإذا كان الإنسان لا يستطيع إظهار شعائر دينه فعليه أن يرتحل وينتقل إلى بلد آخر يستطيع أن يظهر فيه شعائر دينه۔

  وقاراحمد بن اجبرخان

 دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

25رجب1442       

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب