021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم کی جائیداد کی نگرانی بالغ ہونے کے بعد کون کرے؟
70961کفالت (ضمانت) کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  میرے بھائی کا انتقال ہوا ہے۔ان کی بیوی پہلے خلع لے چکی ہے۔اب بچے بالغ ہیں اور والد سے میراث میں ان کو جائیداد ملی ہے۔جوکہ بہت زیادہ ہے۔بچے اب والدہ کے ساتھ ہیں جائیداد میری تحویل میں ہے ۔کیا میں جائیداد ان کے حوالہ کرلوں یا میں چچا ان کی نگرانی کروں۔میری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نابالغ یتیم بچوں کی ملکیت میں جو جائداد ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری ولی پر ہے، یعنی باپ کی طرف سے مقرر کردہ وصی یا دادا یا ان کا وصی یا حاکم وقت اور بالغ ہونے کے بعد جائیداد ان کے حوالہ کرناچاہیے،لیکن اگروہ ابھی تک سمجھ دار نہیں ہیں تو مال ابھی ان کے سپرد نہ کیا جائے،بلکہ  ان کی سمجھ بوجھ کا انتظار کیا جائے ۔نیزیہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ یتیم بچوں کے مال میں باپ اور دادا یا ان کے وصی یا قاضی کے علاوہ  شرعا چچا کو ولایت حاصل نہیں ہے۔

اگر باپ کی طرف سے وصی یا دادا یا ان کا وصی نہ ہو اور نہ ہی عدالت کی طرف سے اس کا نظم ہو  تو اس صورت میں جماعت المسلمین (جس میں کوئی عالم دین بھی ہو) مشورے سے طے کرلے کہ بچوں  کے حق میں کون زیادہ بہتر ہے جو ان کی جائیداد کی دیانت داری سے نگرانی کرے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :قوله: (لا المال) فإنه الولي فيه الاب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط.
(حاشية رد المحتار - (ج 3 / ص 83)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :  ( فإن بلغ ) الصبي ( غير رشيد لم يسلم إليه ماله حتى يبلغ خمسا وعشرين سنة فصح تصرفه قبله ) أي قبل المقدار المذكور من المدة ( وبعده يسلم إليه ) وجوبا يعني لو منعه منه بعد طلبه ضمن وقبل طلبه لا ضمان كما يفيده كلام المجتبى وغيره قاله شيخنا ( وإن لم يكن رشيدا ) وقالا : لا يدفع حتى يؤنس رشده ولا يجوز تصرفه فيه.
(رد المحتار :ج 25 / ص 155)
قال العلامۃ الآ لوسی رحمہ اللہ :حتى إِذَا بَلَغُواْ النّكَاحَ } أي إذا بلغوا حدّ البلوغ وهو إما بالاحتلام أو بالسن وهو خمس عشرة سنة عند الشافعي وأبي يوسف ومحمد وهي رواية عن أبي حنيفة وعليها الفتوى عند الحنفية لما أن العادة الفاشية أن الغلام والجارية يصلحان للنكاح وثمرته في هذه المدة ولا يتأخران عنها ، والاستدلال بما أخرجه البيهقي في «الخلافيات» من حديث أنس إذا استكمل المولود خمس عشرة سنة كتب ما له وما عليه وأقيمت عليه الحدود ضعيف لأن البيهقي نفسه صرح بأن إسناد الحديث ضعيف ، وشاع عن الإمام الأعظم أن السن للغلام تمام ثماني عشرة سنة وللجارية تمام سبع عشرة سنة ، وله في ذلك قوله تعالى : { حتى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ } [ الأنعام : 152 ] وأشُدّ الصبي ثماني عشرة سنة هكذا قاله ابن عباس وتابعه القتبي ، وهذا أقل ما قيل فيه فيبنى الحكم عليه للتيقن.
(تفسير الألوسي - (ج 3 / ص 429)
 

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۲/جمادی الاولی    ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب