021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فون پرمختلف الفاظ سے طلاق دینے کاحکم
70856طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

فون پرمختلف الفاظ سے طلاق  دینے کاحکمجناب  مفتی  صاحب  عرض  یہ ہے کہ  میرے شوہر نے   فون پر میرے لئے طلاق  کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ  ﴿ میں  تمہیں  ایک دو  تین کے الفاظ میں مجھے شک ہے ﴾تم مجھ  پر طلاق  یافتہ  ہو ﴿ مطلقہ﴾طلاق یافتہ   ہو،طلاق یافتہ ہو ۔ پشتو میں عبارت  کچھ یوں ہے ۔تا موں  بوند رے طالوقہ ہی، طالوقہ ہی ، طالوقہ ہی۔     اس کے بعد   اس نے  فون  میری والدہ کو دینے کو کہا,اور ان سے کہا کہ چچی جان   تمہاری  بیٹی  مجھ پر  ١،۲ ، ۳مطلقہ ﴿ طلاق  یافتہ﴾ ہے آپ کی  بیٹی  کو فارغ  کردیا ۔ پشتو  میں اس  طرح ہے کہ  ,, تو لوئر  موں بوندے  طالقہ دہ ،،  جب  والدہ  یہ بات  بول  رہی تھی اس  وقت   موبائل کااسپیکر  آن تھا  اور  یہ گفتگو  میرابھائی  اور  ہمشیرہ  بھی سن رہے تھے،وہ  اس چیز کی گواہی  دیتے  ہیں کہ  اس نے اس طرح کے  الفاظ  بولے ہیں  ۔ اب  میرے شوہر کہتا ہے کہ میں  نے اس  کو طلاق  نہیں دی بلکہ اس کی  والدہ کو  طلاق کا بولا ہے کہ  آپ کی بیٹی  کو  طلاق ہے ۔ ایک  مسئلہ  میرے شوہر کے ساتھ  یہ ہے کہ وہ مرگی کامریض  ہے ، کبھی کبھی  اس کو دورے آتے ہیں ،ایمبی  وال کی گولیاں استعمال کرتاہے ، جب وہ   غصہ میں ہوتا ہے   اس  کو کچھ پتہ نہیں چلتا   بعد  میں کبھی  پوچھتا ہے کہ میں  نے کیا کردیا         میں  اللہ تعالی  کو  حاضر ناظر  جان  کر یہ تحریر  لکھ رہی  ہوں ،میرا  تین ماہ  کاحمل بھی ہے اگر  ان باتوں  کو دیکھ کر   میرا کوئی شرعی حل نکلتا ہو تو قرآن وسنت کی  روشنی میں  رہنمائی  فرمائیں ۔ ساتھ  یہ بھی  بتادیں کہ حمل کے دوران  غصے کی حالت  میں  طلاق کا کیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  رہے کہ  غصے کی حالت میں  اور فون پر  طلاق  واقع ہوجاتی ہے ،اسی طرح  عورت حمل سے ہو  تو اس پر بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے ،لہذاصورت  مسئولہ  میں اگرشوہر  نے  اپنے ہوش  حواس میں اپنی بیوی کے حق میں تین  طلاق کے  الفاظ  استعمال کئے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکورہےتو  اس سے اس کی  بیوی  تین  طلاقوں کے ساتھ  مغلظہ  ہوکر  اس پر  حرام ہوگئی  ۔ لہذا  اب  دونوں کے لئے  میاں بیوی کی حیثیت  سے اکٹھے  زندگی گذار نا  جائز نہیں ۔اور  حلالہ  شرعیہ

﴿ یعنی  عدت پوری ہونے کےبعد عورت کاکسی  دوسری  جگہ نکاح  ہوجائے پھر اس شوہر  کے ساتھ  ہمبستری ہوجائے، اس کے بعد  شوہر  اس کو طلاق  دیدے یا اس کا انتقال  ہوجائے پھردوسرے شوہر  کی طرف سے طلاق  یا وفات کی عدت

 گذار کر  آپس کی رضامندی  سےپہلے  شوہر سے   نکاح ہو﴾کے بغیر پہلے شوہرسے  دوبارہ  نکاح بھی  نہیں ہوسکتا ہے ۔

حوالہ جات
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور (1/ 676)
أخرج ابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَالْبَيْهَقِيّ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله {فَإِن طَلقهَا فَلَا تحل لَهُ من بعد} يَقُول: فَإِن طَلقهَا ثَلَاثًا فَلَا تحل لَهُ حَتَّى تنْكح غَيره
الفتاوى الهندية (8/ 125)
رجل قال لامرأته أنت طالق أنت طالق أنت طالق فقال عنيت  بالأولى الطلاق وبالثانية والثالثة إفهامها صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا كذا في فتاوى قاضي خان
{ صحيح البخاري ـ م م (7/ 0)
وقال الليث حدثني نافع قال كان ابن عمر إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال لو طلقت مرة أو مرتين فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك
ٰجب حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے  ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا  جاتا  کہ  جس نے اپنی بیوی  کو  تین طلاقین دیں   ہوں   تو فرماتے  کہ کاش    وہ ایک یا دوطلاقیں    دیتا  ،اس لئے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسا کرنے کاحکم   دیاتھا  ، ، لہذا اگر اس نے تین   طلاقیں دیں   تو   اس  کی بیوی  اس پر حرام ہوجائے گی  ، یہاں تک وہ اس کے   علاوہ  کسی سے  نکاح  کرلے۔ یعنی  حلالہ  شرعیہ کے بعد ۔
        سنن أبي داود (2/ 242)
 حدثنا أحمد بن عمروبن السرح ، ثنا ابن وهب ، عن عياض بن عبد الله الفهرى وغيره ، عن ابن شهاب ، عن سهل بن سعد ، في هذا الخبر ، قال : فطلقها ثلاث تطليقات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأنفذه رسول الله صلى الله عليه وسلم ،
حضرت   عویمر رضی اللہ  عنہ   نے اپنی بیوی  کو آنحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے تین طلاقیں دیدیں  تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے  تینوں  کو  نافذ  فرمایا ۔

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

١۲ جمادی الاولی ١۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب