71308 | زکوة کابیان | سامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان |
سوال
ایک شخص نے قسطوں پر 15 لاکھ کا پلاٹ خریدا ۔ 3 لاکھ ایڈوانس ادا کر دیے اور باقی ہر ماہ پانچ سال تک 20 ہزارروپے دینے ہیں ۔ جب مکمل ادائیگی ہو جائے گی تو پھر پلاٹ کی ملکیت دی جائے گی ۔ مسئلہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں زکوۃ کی ادائیگی کا حکم کیا ہو گا ؟پانچ سال پورے ہونے کے بعد ادا کی جائے گی یا ہر سال جو قسطیں ادا کی ہیں ، ان کے حساب سے زکوۃ ادا کرنی ہو گی ؟
دوسرا مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ پلاٹ / مکان پر زکوۃ اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب اسے تجارت کی نیت سے خریدا جائے ۔ اگر کسی شخص نے پلاٹ خریدا لیکن اس کی فی الحال بیچنے کی نیت ہے اور نہ ہی مکان بنانے کی ، بلکہ وہ یہ سوچتا ہے کہ بعد میں دیکھیں گے ، فروخت کر دیں گے یا رہائش کے لیے مکان بنائیں گے ۔ اس صورت میں زکوۃ کا کیا حکم ہو گا ؟
تنقیح:سائل نے بتایا ہے کہ پلاٹ ایک نئی بننے والی سوسائٹی میں ہے ۔ عام طور پر قبضہ قسطیں مکمل ہونے کے بعد دیا جاتا ہے لیکن جن خریداروں پر سوسائٹی مالکان کو اعتماد ہو تو ان کو پہلے بھی قبضہ دے دیتے ہیں ۔سائل کو اب تک قبضہ نہیں ملا ہے ۔سائل کاپلاٹ خریدتے وقت تجارت کا حتمی ارادہ نہیں تھا ، نیت یہ تھی کہ مناسب قیمت لگی تو بیچ دوں گا اور اگر رہائش کی ضرورت ہوئی تو تعمیر کر کے رہائش اختیار کر لوں گا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پلاٹ تجارت یعنی آگے بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اور اس پر قبضہ بھی حاصل ہو جائے ( اس طور پر کہ خریدار اس میں آگے تصرف کر سکے )تو اس پر زکوۃ دینا لازم ہےاور اگر خریداری کا عقد تو ہوا ہو لیکن ابھی قبضہ نہ ملا ہو جیسا کہ قسطوں پر پلاٹوں کی خرید و فروخت میں عموما ہوتا ہے تو ایسی صورت میں زکوۃ واجب نہیں ۔
پلاٹ اگر تجارت کی حتمی نیت سے خریدا جائے تو اس پر زکوۃ دینا لازم ہوتا ہےلہذاصورت مسئولہ میں پلاٹ خریدتے وقت سائل کا چونکہ تجارت کا حتمی ارادہ نہیں تھا لہذا پلاٹ پر زکوۃ دینا لازم نہیں ۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 96)
" ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة " لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة " وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة " لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر ولهذا يصير المسافر مقيما بمجرد النية ولا يصير المقيم مسافرا إلا بالسفر "
العناية شرح الهداية (2/ 169)
والحاصل أن ما يدخل في ملك الرجل على نوعين: نوع يدخل بغير صنعه كالإرث. ونوع يدخل بصنعه وهو أيضا على نوعين: ببدل مالي كالشراء والإجارة وغيره كالمهر وبدل الخلع وبدل الصلح عن دم العمد، وبغير بدل كالهبة والصدقة والوصية، فالذي يدخل بغير صنعه لا يعتبر فيه نية التجارة مجردة بالاتفاق، والذي يدخل ببدل مالي يعتبر فيه نية التجارة بالاتفاق، والذي يدخل ببدل غير مالي أو بغير بدل فقد اختلف فيه على ما ذكرنا.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 9)
ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة، وقال زفر: " اليد ليست بشرط " وهو قول الشافعي فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما.
وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 6)
ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط
عبدالدیان اعوان
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
21 جمادی الثانی 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |