021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ریاء کی تعریف اور حقیقت
71239تصوف و سلوک سے متعلق مسائل کا بیانمعجزات اور کرامات کا بیان

سوال

ریاء کی تعریف کیا ہے ؟ کیا اپنے نیک عمل پر لوگوں کے مطلع ہونے سے خوشی ہونا بھی ریاء ہے اور کیا لوگوں

کے سامنے کثرت عبادت ریاء ہے؟اسی طرح عبادت کے درمیان دکھلاوے کا وسوسہ آنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی بھی دنیوی مفاد اور غرض کے لیے عبادت کا اظہار اور دکھلاوا ریاء ہے،لہذا کسی کواپنے عبادت پر مطلع ہونےیا دیکھ لینے پر خوشی ریاء نہیں،حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی  کے حوالے سےاشرف السوانح (ج۲ص ۲۱۰)میں لکھا ہےکہ ریاء کی تعریف" قصد رضاء خلق بذریعہ دین "ہے،بالفاظ دیگرعبادت کا اظہار(دکھلاوا) کسی بھی دنیوی غرض کے لیے کیا جائے،نیز فرمایا: فان حقیقۃ الریاء المراءاۃ فی العبادات لغرض دنیوی(بحوالہ حقیقت ریاء اور اس کا علاج از حکیم اختر صاحب )بلکہ تربیت السالک میں (ج۱،ص۳۱۷ پر) لکھا ہے کہ مخلوق سے اپنے عمل کو چھپانے کی کوشش تو ضروری ہے،لیکن چھپانے کا زیادہ اہتمام بھی ریاء میں داخل ہے،اس لیے کہ یہ بھی تو مخلوق پر نظر ہوئی جبھی تو ان سے چھپانا چاہتا ہے،اور ریاء کی روح بھی یہی مخلوق پر نظر ہے،لہذا صرف متوجہ الی اللہ ہوکر عبادت کی جائے،پھر چاہے اللہ چھپائے رکھیں یا ظاہر کریں۔(ماخوذازتربیت السالک:ج۱،ص۳۱۷ )

 لہذا محض لوگوں کی موجودگی میں زیادہ عبادت  جبکہ عمومی ماحول عبادت کاہویا اپنی نیکی پر لوگوں کے مطلع ہونے یا دیکھ لینےسے خوشی یا ایسا دکھلاوا جس سے مقصود دنیوی غرض نہ ہو، بلکہ کسی دینی غرض کے لیے ہو ،مثلا کسی کی بدگمانی دور کرنے کے لیےیا استاذاور مرشد کی دعاء وتوجہ حاصل کر نے کے لیےیادوسروں کو نیک اعمال کی ترغیب یا تعلیم کے لیے نیک عمل  کا اظہارکرناریاء میں داخل نہیں،لیکن لوگوں کی تعریف،خوش نودی وخوش اعتقادی کے حصول کے لیے عبادت کرنایا عبادت میں زیادتی کرنا ریاء ہے۔اسی طرح نیک عمل درست نیت سے شروع کرنے کے بعد درمیان میں ریاء کا شائبہ یاوسوسہ آنا بھی اخلاص کے منافی نہیں،بشرطیکہ ایسے خیال اور وسوسہ کو ہٹانے کی کوشش کرے اور اس طرف توجہ نہ دے۔تفسیر مظہری اور اس کے حوالہ سےتفسیرمعارف القرآن سورہ کہف کے آخر میں لکھا ہے کہ دوسروں کو عمل دکھلانا منع ہے،دوسروں کا دیکھنا اور اس پر خوش ہونا منع نہیں۔

حوالہ جات
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 3331)
والتحقيق: أن الرياء مأخوذ من الرؤية، فهو ما يفعل ليراه الناس،ولا يكتفي فيه برؤية الله سبحانه،
التفسير المظهري (6/ 76)
اخرج ابن ابى حاتم وابن ابى الدنيا في كتاب الإخلاص عن طاؤس قال قال رجل يا رسول الله انى اقف الموقف أريد وجه الله وأحب ان يرى موطنى فلم يرد عليه شيئا حتى نزلت هذه الاية فمن كان يرجوا الآية مرسل وأخرجه الحاكم في المستدرك موصولا عن طاوس عن ابن عباس وصححه على شرط الشيخين واخرج ابن ابى حاتم عن مجاهد قال كان رجل من المسلمين يقاتل وهو يحب ان يرى مكاله فانزل الله من كان يرجوا لقاء ربّه الاية- واخرج ابو نعيم وابن عساكر في تاريخه من طريق السدى الصغير من الكلبي عن ابى صالح عن ابن عباس قال كان جندب بن زهير إذا صلى أو صام او تصدق مدكر بخير ارتاح له فزاد في ذلك لمقالة الناس له فنزلت في ذلك فمن كان يرجو لقاء ربّه الاية- فان قيل روى الترمذي عن ابى هريرة قال قلت يا رسول الله اما في بيتي؟؟؟ في مصلاى إذ دخل علىّ رجل فاعجبنى الحال الّتي رانى عليها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ورحمك الله أبا هريرة لك اجر ان اجر السر واجر العلانية- وروى مسلم عن ابى ذر قال قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت الرجل يعمل العمل من الخير ويحمده  الناس عليه قال تلك عاجل بشرى المؤمن- فان قيل هذان الحديثان  ينافيان ما ذكر في شأن نزول الاية- قلنا لا منافاة أصلا فان ما ذكر في شأن نزول الاية- مراده ان من عمل لله ويريد ان يراه الناس ويحمده على عمله- او يزيد في عمله إذا راه الناس فهو من الرياء والشرك الخفي- واما من عمل لله وراه الناس و حمدوه فلستبشر به وهو لا يريد حمد الناس عليه ولاجزاء منهم ولا يزيد في عمله لاجلهم فذلك بشره العاجل وله اجر السر والعلانية والله اعلم-

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب