021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مروجہ بارات  کاحکم
71412نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال:ا لسلام عليكم!میری عمر27برس ہے،میرےگھروالےرشتہ ڈھونڈرہےہیں،ہمارےہاں رشتےبرادری میں ہی کیےجاتےہیں،مجھے اس بات کاپتاچلاہےکہ اسلام میں بارات کاکوئی حکم نہیں کہ لڑکی والوں پرکھانےپینےکابوجھ ڈالاجائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آج کل مروجہ بارات بہت سے مفاسد پرمشتمل ہوتی ہے اورایک ایسی رسم بن گئی ہے جس کی وجہ سے لڑکے اورلڑکی والے ایک عذاب میں مبتلاہوجاتےہیں اورغریبوں کی لڑکیوں کی شادی میں مشکلات پیش آرہی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رخصتی کاکوئی خاص طریقہ نہیں تھا،اورنہ ہی بارات اورلوگوں کے اجتماع کاکوئی اہتمام تھا، بلکہ نکاح کے بعدلڑکی  کے گھروالے لڑکی کوخودلے کرلڑکے کے گھرجاتے تھے ۔

ہاں  اگرپردے کااہتمام  ہواورمردوں کے ساتھ اختلاط وغیرہ مفاسد نہ ہوں ،اورکچھ خواتین لڑکے والوں کے ہاں سے چلی جائیں اورلڑکی کوساتھ لے آئیں تورخصتی  کے وقت اس طرح کے  قریبی رشتہ داروں کے گھرمیں جمع ہونے کی گنجائش ہے،اوران کے لئے بقدراستطاعت کھانے کاانتظام کرنابھی درست ہے،بشرطیکہ کھاناکھلانے میں اسراف  ریاء اورنمود نہ ہو،اوراس کھانے کوصرف مہمان نوازی کی حیثیت دی جائے ،اس کودعوت مسنونہ نہ سمجھاجائے ،کیونکہ رخصتی کے موقع پرلڑکی والوں کے طرف سے کھانے کاانتظام شریعت میں ثابت نہیں ۔

حوالہ جات

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

15/جمادی الثانیہ 1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب