021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن بھائیوں میں میراث کی تقسیم
71647میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  ہمارے والد صاحب نے میراث میں دو مکانات چھوڑے ہیں۔جن کی قیمت تقریبا 6.5کروڑ ہے۔ایک مکان والدصاحب نے اپنے بڑے بیٹے کے نام پر خریدا ہےاور والدہ نے بھی  اپنے انتقال  سے پہلے ایک  مکان ایک بیٹے کو  منتقل کردیا ہے۔ والد کا انتقال 1997میں ہوا ہے اور ماں کا انتقال 2018 میں ہوا تھا۔ہم سات بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ایک بھائی کا انتقال 2019 میں ہوا۔اب مذکورہ جائیداد کی تقسیم شریعت  کے مطابق کس طرح ہونی چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر والد صاحب نے مکان صرف بیٹے کے نام سے خریدا ہے ،باقاعدہ ہبہ کرکے قبضہ نہیں کرایا ہے (جیسا کہ سوال سے یہی ظاہر ہورہا ہے) تو اس صورت میں مکان والدصاحب کے ترکہ میں شامل ہوگا اور اس میں تمام ورثہ حقدار ہوں گے۔

والدہ نے جو مکان  بیٹے کو ہبہ کیا ہے ،اس کی وضاحت سوال میں نہیں ہے کہ وہ ان کی اپنی ملکیت تھی یا انہوں نے شوہر  کے ترکہ میں سے ہبہ کیا  ہے۔اگر والدہ کی اپنی ملک تھی تو اگر بیٹے کو مکان  خالی کرکےقبضہ دے دیا تھا تو مذکورہ مکان اس بیٹے کی ملکیت ہوگی، جبکہ دوسری صورت میں یہ ہبہ درست نہیں ہے اور مذکورہ مکان ترکہ میں شامل ہوگا اور اس میں تمام ورثہ حقدار ہوں گے۔

 میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،قرضوں کی ادائیگی اور اگر وصیت کی ہو تو تہائی مال تک اس کے نفاذ کے بعدوالدین  کی تمام  جائیداد کو 17 حصوں میں تقسیم کرکے ہر بھائی کو /2 حصے (%11.7647) اورہر  بہن کو ایک حصہ (%5.8823دیاجائے۔

اگر مرحوم بھائی کی بیوی اور اولاد وغیرہ ورثاء موجود ہیں تو اس کا حصہ ان ہی میں تقسیم ہوگا،اورہ اگر اس کے یہ  ورثہ نہیں ہیں تو اس کا حصہ بھی بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ ہر بھائی کو بہن کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ  ابن عابدین رحمہ اللہ : وتتم الهبة بالقبض الكامل   ،  فيشترط القبض قبل الموت  ولو الموهوب شاغلا     لملك الواهب لا مشغولا به.
    ) الد ر المختار وحاشية   ابن عابدين :5/ 690)
قال العلامۃ شیخی زادہ رحمہ اللہ :   وتتم الهبة بالقبض الكامل     ولو كان الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به؛ لقوله  عليه السلام: لا تجوز الهبة إلا مقبوضة.
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر :2/ 353)

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۶/جمادی الثانی   ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب